اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

'ستیہ گرہ، گاندھی جی کی ایک انوکھی تکنیک'

مہاتما گاندھی نے انسانیت کے لیے ستیہ گرہ اور تعمیری پروگرامز کی شروعات کی تھی اور ان کے اس نظریے نے بھارتیوں کو کافی فائدہ بھی پہنچایا۔ آزادی، انصاف اور پرامن معاشرہ حاصل کرنے میں انہیں کافی مدد بھی ملی۔ ان کا نظریہ بالکل واضح تھا اور وہ بس یہ تھا کہ 'انسان دیگر جانداروں اور قدرت کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ رہے'۔

ستیہ گرہ، گاندھی جی کی ایک انوکھی تکنیک

By

Published : Sep 7, 2019, 7:54 PM IST

Updated : Sep 29, 2019, 7:42 PM IST

ستیہ گرہ ناانصافی سے لڑنے کے لئے گاندھی جی کی ایک انوکھی تکنیک تھی۔ انہوں نے یہ تکنیک سچائی کے ساتھ اپنے 50 برس کے تجربے سے حاصل کیا تھی۔

جب گاندھی جی ستیہ گرہ کے ذریعے بھارت کو برطانوی حکمرانی سے آزادی دلا رہے تھے، اسی دوران انہوں نے تعمیری پروگرامز کے ذریعے قوم کی تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی۔

وہ لوگ جو ستیہ گرہ تحریک میں حصیہ لینا چاہتے تھے وہ گاندھی جی کے ساتھ ان کے احمدآباد کے سابرمتی اور وردھا کے سیوگرام آشرموں میں رہتے تھے۔

ان آشرموں میں گاندھی جی نے سخت قانون عائد کیے تھے جو کہ گیارہ وچن سے مشہور ہیں۔ جن کو گاندھی جی کے ایک شاگرد ونوبا بھاوے نے 'اکادش وارتا' نام دیا جو کہ گاندھی جی سے متاثر ہوکر ملک میں قائم کئی آشرموں میں مشہور ہوئے۔

بھارت میں سکونت اختیار کرنے سے پہلے گاندھی جی نے جنوبی افریقہ میں 20 برس گذارے تھے۔ انہوں نے وہاں پر بھارتی مہاجرین کی پریشانیوں میں دلچسپی لینا شروع کیا اور اس میں اتنی گہرائی سے لگ گئے کہ انہوں نے اپنے منافع بخش قانونی پیشے کو ترک کردیا اور عدم تشدد کے فلسفے کے ساتھ ان کی رہنمائی کرنے لگے جسے انہوں نے بعد میں ستیہ گرہ کے دوران عملی طور پر کرکے دکھایا۔

گاندھی جی کے لیے ستیہ گرہ صرف عدم تشدد کی جدوجہد کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ یہ انکی زندگی کا فلسفہ بن گیا تھا۔

گاندھی جی کا پختہ یقین تھا کہ جن لوگوں نے ستیہ گرہ کو اپنایا وہ کسی بھی طرح کی ناانصافی برداشت نہیں کریں گے، ان کے راستے میں جو بھی تکلیفیں آئینگی وہ اسے خوشی خوشی قبول کر لیں گے، ستیہ گرہ میں بزدلی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ لڑائی، ناانصافی کے خلاف ہونی چاہئے نہ کہ ناانصافی کرنے والے شخض کے خلاف، ستیہ گراہ انتقام یا مخالف کو سزا دینے کا عمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ہر معاشرے میں اچھے اور برے لوگ موجود ہیں اور پورا معاشرہ برا نہیں ہو سکتا ہے۔

گاندھی جی نے اپنی زندگی میں کئی مواقع پر ستیہ گراہ کو عمل مین لایا۔ انہوں نے وقت اور صورتحال کے مطابق ستیہ گرہ میں مناسب طور پر ترمیم کی۔ وہ اکثر اس بارے میں سوچتے رہتے تھے اور لوگوں کو اپنے خطابات کے ذریعے سمجھاتے تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ستیہ گرہ کے ماہر بن چکے ہیں لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ستیہ گرہ کے کئی اور موضوع ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ جب دنیا کو حق، محبت اور خالص روح کی طاقت کا احساس ہوگا، ستیہ گرہ کے مختلف نئے پہلو سامنے آئیں گے اور اس میں لمحہ بہ لمحہ ترقی ہوگی۔

گاندھی جی کے مطابق بہترین ستیہ گرہ وہ ہے جس سے مخالفین کو سچے مقصد کے جواز کو سمجھا کر کامیابی حاصل ہوسکے۔ لہذا انہوں نے مخالفین کے ساتھ ساتھ عام لوگوں میں بھی ناانصافی کے بارے میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ستیہ گرہ کو ہر طرح کے ناانصافی کے ساتھ عدم تعاون کرنا ہوگا اور اس سے جو بھی سزا یا تکلیفیں لازمی ہوجائے اسے خوشی سے قبول کرنا ہوگا۔

گاندھی جی کی قیادت میں ملک میں ستیہ گراہ کی مختلف تحریکیں دیکھنے میں آئیں۔سنہ 1919 سے سنہ 1922 کے درمیان عدم تعاون کی تحریک اور سنہ 1930-34 کی سِول نافرمانی کی تحریک کے دوران ملک میں لوگوں میں بے مثال بیداری اور سرگرمی دیکھنے کو ملی۔ ان لوگوں نے خوشی خوشی ہر طرح کی آزمائشیں برداشت کیں۔

پہلی تحریک کے دوران تعلیم یافتہ درمیانی طبقے کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جیل گئی۔ دوسری تحریک میں ہزاروں خواتین برطانوی حکمرانی کی مخالفت کرنے کے لئے اپنے گھروں سے نکلیں۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ ستیہ گرہ ناانصافی کے خلاف احتجاج کا ایک موثر طریقہ ہے۔

چمپارن ستیہ گرہ، ویکوم ستیہ گرہ اور بردولی ستیہ گرہ کی بڑی کامیابی کے بعد لوگوں کا حوصلہ بڑھ گیا۔ یہ ستیہ گراہ تحریکیں محدود مقاصد کے لیے تھیں۔

ستیہ گرہ کی تحریک دے کر گاندھی جی نے مظلوم، استحصال زدہ اور محنتی عوام کو آزاد کرانے اور ان میں زبردست خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے دنیا کے سامنے ایک مؤثر طریقہ پیش کیا۔ ستیہ گرہ کے ذریعے لالچ اور خوف کو پیار سے جیتا جا سکتا ہے۔

جنوبی افریقہ سے بھارت واپس لوٹنے کے بعد گاندھی جی نے انڈین نیشنل کانگریس کو متاثر کیا کہ وہ مختلف تعمیری پروگرامز کو اپنے نظام میں شامل کریں۔

باردولی میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے سے پہلے ہی گاندھی جی نے کھادی کے کام، چھوا چھوت اور قوم پرستی کی تعلیم کو ختم کرنے کے لیے کانگریس کارکنوں کے لیے ایک شرط رکھی تھی اور ایسا کرتے ہوئے انہوں نے آزادی کی جدوجہد میں تعمیری کام کو قابل احترام مقام دیا۔

گاندھی جی کی نظر میں عدم تشدد کی جدوجہد کا مقصد صرف برطانوی حکمرانی سے ملک کی آزادی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ معاشرے میں بنیادی تبدیلیوں کا آغاز کرنا بھی تھا۔

کانگریس نے بھارت چھوڑنے کے لیے انگریز حکمرانوں کو ایک برس کی نوٹس دی تھی۔ اور اگر برطانوی حکومت نے اس کی منظوری نہیں دی تو کانگریس مکمل آزادی کے لیے دباؤ ڈالے گی۔ آزادی کی جدوجہد میں ضروری طاقت اور حوصلہ حاصل کرنے کے لیے گاندھی جی نے اپنے تعمیری پروگرامز میں سیاسی کارکنوں کو شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

ان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی، چھوا چھوت کو ختم کرنے، ممانعت، کھادی اور کاٹیج صنعتوں کو فروغ دینے کی سرگرمیاں شامل تھیں۔ بائیں بازو کے رہنماؤں کے اصرار پر کسانوں اور ٹریڈ یونینوں سے متعلق سرگرمیاں بھی شامل کی گئی تھیں۔

تحریک آزادی کے دوران گاندھی جی نے چرکھا سنگ، گرو میڈیاگ سنگھ، ہریجن سیوک سنگھ، گئو خدمت سنگھ، راشٹر بھاشا پرچار سمیتی، عدم جاتی سیوک سنگھ اور مجور مہاجن جیسے ادارے بنائے اور کانگریس کے قومی سطح کے رہنماؤں کو ان اداروں میں ہر ایک ادارےکا انچارج بنایا۔

بدقسمتی سے کانگریس پارٹی نے ان تعمیری پروگرامز پر اتنا خرچ نہیں کیا جتنا انہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں کیا۔اگر اس وقت کانگریس گاندھی جی کے نقشے قدم پر چلے ہوتے تو آج عدم تشدد کارکنوں کی ایک فوج بنا لی ہوتی جو مختلف متعدد تعمیری پروگرامز میں مصروف ہوتی اور ملک میں موجودہ غم اور غصہ نہیں ہوتا۔

Last Updated : Sep 29, 2019, 7:42 PM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details