رمضان کے ایام میں اگر دسترخوان پر روح افزا کا شربت نہ ہو تو افطار کا لطف پھیکا پڑ جاتا ہے۔
روح افزا بحران، کتنی حقیقت کتنا فسانہ؟ شربت روح افزا ہمدرد کا خاص پروڈکٹس ہے جس کی مانگ پورے بر صغیر میں ہے۔روح افزا بحران کی زد میں ہے جس کی وجہ سے اس سال رمضان کے دسترخوان پھیکے نظر آرہے ہیں۔
ہمدرد کے خاندانی جھگڑے کی کہانی خبروں میں ہے۔ ایسے میں پاکستان کی جانب سے روح افزا کی سپلائی کی پیشکش نے اس پورے معاملہ کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔ ہمدرد دواخانے کا قیام حکیم عبدالمجید نے سنہ 1906 میں دہلی میں کیا تھا جو 1948 میں ایک وقف ادارہ بن گیا اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دیا گیا۔ تقسیم ملک کے بعد حکیم حافظ عبدالمجید کے چھوٹے بیٹے پاکستان چلے گئے تھے جہاں انھوں نے ہمدرد کمپنی قائم کیا اور وہاں بھی روح افزا کی مینوفیکچرنگ شروع ہوئی۔
روح افزا کی تازہ عدم دستیابی کے سبب آن لائن پر پاکستانی روح افزا دستیاب ہے لیکن اس کی قیمت انڈیا میں بننے اور فروخت ہونے والے روح افزا سے زیادہ ہے۔
دو دنوں سے روح افزا بازار میں نہیں ہے۔سوشل میڈیا پر یہ خبر آگ کی طرح پھیل رہی ہے۔ قیاس یہ لگایا جارہا ہے کہ روح افزا بنانے والی کمپنی ہمدرد کے مالکان میں اختلاف ہوگیا ہے۔
کہا یہ بھی جارہاہے کہ شربت بنانے کے لیے ضروری جڑی بوٹیوں کی کمی کی وجہ سے لال شربت کا بحران سامنے آیا ہے۔اس پوارے معاملے کی حقیقت کیا ہے یہ ہم آپ کو بتاتے ہیں؟
ہمدرد کے مالکان اس تعلق سے خاموش ہیں، لیکن ہمدرد کے چیف مارکیٹنگ افسر منصور علی ٹیلفون پر بات چیت کرتے ہوئے پاکستانی روح افزا کی سپلائی کی پیشکش کو خارج کردیا۔
دوسری طرف ہمدرد کا یہ دعوی کہ رمضان میں روح افزا کا بحران نہیں، خود مسلم صارفین کا ہمدرد کے دفتر آکر روح افزا خریدنا اس پورے دعوے کو غلط ثابت کررہا ہے۔