عالمی شہرت یافتہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ علم الحیوانات کے سائنسداں، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمن صدیقی نے یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا (امریکہ) کے پروفیسر کیگو مشیرا اور دیگر سائنسدانوں کے ساتھ مل کر اس بات کی دریافت کی ہے کہ جگر کے کینسر کا سینٹرل ریگولیٹری پاتھ وے، الکحل اور ہیپاٹائٹس انفیکشن کے باعث نمو پاتا ہے۔
جگر کے کینسر پر اے ایم یو کے سائنسداں کی تحقیق - علی گڑھ
ڈاکٹر صدیقی نے بتایا کہ جگر کے کینسر کے ہر برس پانچ لاکھ نئے معاملے سامنے آتے ہیں، جن سے متاثر افراد کے مرنے کی شرح صرف 10 سے 20 فیصد ہے، جبکہ پستان کے کینسر سے متاثر ہونے والے افراد کے بچنے کی شرح 91 فیصد ہے۔
اے ایم یو سائنسداں، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حفظ الرحمن صدیقی کی اس نئی تحقیق سے جگر کے کینسر جیسی مہلک بیماری کے علاج میں نئے طریقے سے مدد ملنے کی امید ہے۔ سائنسدانوں کی یہ تحقیق حال ہی میں مؤقر بین الاقوامی سائنسی جریدے "نیچر کمیونیکیشن" میں شائع ہوئی ہے۔
سائنسداں ڈاکٹر حفظ الرحمن صدیقی نے ای ٹی وی نمائندے سے خصوصی گفتگو میں بتایا ہمارے جسم میں سٹیم سیل (خام خلیے) ہوتے ہیں لیکن سٹیم سیل غیر متناسب حالات میں تقسیم ہوتے ہے لیکن جو کینسر سٹیم سیل ہوتے ہیں وہ سڈول حالات میں تقسیم ہوتے ہیں۔ تو یہ آج تک پتہ نہیں تھا کہ کیسے یہ غیر متناسب حالات تقسیم سیم سڈول حالات میں تبدیل ہو جاتے ہیں کینسر میں۔ ہم لوگوں نے جو پروٹین کی تلاش کی ہے اس کا نام TBC 1D15 ہے جو میں نے اور میرے ساتھی نہ کیا۔
ڈاکٹر صدیقی نے اپنی ریسرچ پیپر میں یہ ثابت کیا ہے کہ الکوحل کے استعمال اور ہیپاٹائٹس انفیکشن سے جگر میں کینسر پنپنا شروع ہوتا ہے جو بنیادی طور سے کینسر سٹیم سیل (خام خلیے) کے ذریعے فروغ پاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کینسر کے خام خلیے کی ٹیومر میں پائے جانے والے نادر خلیے ہوتے ہیں جن سے کینسر کا جنم ہوتا ہے اور وہ خطرناک مرحلے تک پہنچ جاتا ہے۔
ڈاکٹر حفظ الرحمن نے بتایا ابھی ہم نے چوہے پر تجربہ کیا ہے آگے انسان پہ کرنے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ اور بھی تحقیق کی ضرورت ہے کلینک تک پہنچانے کے لئے۔
ڈاکٹر راحت ابرار، ایسوسی ایٹ رکن انچارج شعبہ رابطہ عامہ نے بتایا اگر وہ اسی طریقے سے اپنی تحقیق کو آگے بڑھائیں گے تو یونیورسٹی کے ساتھ ملک کا بڑا نام ہوگا کیونکہ کینسر جیسی بیماری کی تلاش کی جا رہی ہے اور کوشش ہے ہم اس کو جڑھ سے ختم کردیں۔
تو ہماری روایت ہے سائنٹیفک ٹیمپرامنٹ کی ترقی کرنا،
سائنٹیفک لوگوں کو آگے بڑھانا، اچھے سائنٹسٹ کو پیدا کرنا، اس میں سے ایک نوجوان سائٹس کو میں مبارکباد دیتا ہوں اور یونیورسٹی ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
ڈاکٹر صدیقی نے بتایا کہ جگر کے کینسر کے ہر برس پانچ لاکھ نئے معاملے سامنے آتے ہیں، جن سے متاثر افراد کے مرنے کی شرح صرف 10 سے 20 فیصد ہے، جبکہ کہ پستان کے کینسر سے متاثر ہونے والے افراد کے بچنے کی شرح 91 فیصد ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جگر کے کینسر کے 80 سے 83 فیصد معاملے ترقی پذیر ممالک میں پائے جاتے ہیں۔