اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

صدر جمہوریہ کا یوم آزادی سے قبل قوم سے خطاب

صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے 74ویں یوم آزادی کی ماقبل شام، ملک اور بیرونِ ملک میں سکونت پذیر بھارت کے تمام شہریوں کو بہت بہت مبارکباد اور ڈھیر ساری نیک تمنائیں پیش کیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس موقع پر ہم اپنے مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو جذبہ تشکر کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ ان کی قربانیوں کی بنیاد پر ہی ہم سب آج ایک آزاد ملک کے شہری ہیں۔

president ram nath kovind address to nation
صدر جمہوریہ کا قوم سے خطاب

By

Published : Aug 14, 2020, 8:29 PM IST

صدر موصوف نے کہا کہ ہماری جنگ آزادی کے آئیڈیلس کی بنیاد پر ہی جدید بھارت کی تعمیر عمل میں آرہی ہے۔ ہمارے دور اندیش معماران قوم نے، اپنے متنوع خیالات کو قومیت کے ایک دھاگے میں پرویا تھا۔ ان کی مشترکہ عہدبندگی تھی۔ ملک کو ظالمانہ بیرونی تسلط سے آزاد کرانا اور مادرِ ہند کی اولادوں کے مستقبل کو محفوظ کرنا انہوں نے اپنی سرگرمیوں سے جدید ملک کی شکل میں بھارت کی شناخت کو عملی شکل عطا کی۔

دیکھیں ویڈیو

ہم خوش بخت ہیں کہ مہاتما گاندھی ہماری تحریک آزادی کے رہنما رہے، ان کی شخصیت میں ایک سنت اور سیاسی رہنما کا جو امتزاج دکھائی دیتا ہے وہ بھارت کی مٹی میں ہی ممکن تھا۔ سماجی جدوجہد، اقتصادی مسائل اور آب و ہوا کی تبدیلی سے دو چار آج کی دنیا، گاندھی کی تعلیمات میں ان کا حل تلاش کرتی ہے۔ مساوات اور انصاف کے لئے ان کی وابستگی ہمارے جمہوریہ کا بنیادی اصول ہے۔ گاندجی کے متعلق نوجوان نسل کے اشتیاق اور جوش دیکھ کر مجھے ازحد خوشی ہوتی ہے۔

عزیز ہم وطنو، اس برس یوم آزادی کی تقریبات میں ہمیشہ کی طرح دھوم دھام نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ پوری دنیا ایک ایسے مہلک وائرس سے جوجھ رہی ہے جس نے عوام الناس کو زبردست نقصان پہنچایا ہے اور ہر طرح کی سرگرمیوں میں رخنہ پیدا کیا ہے۔ اس عالمی وبائی مرض کی وجہ سے ہم سب کی زندگی یکسر طور سے بدل گئی ہے۔

یہ بات ازحد اطمینان بخش ہے کہ اس چنوتی کا سامنا کرنے کے لئے مرکزی حکومت نے پیشگی اندازہ کرتے ہوئے بروقت مؤثر اقدامات کیے تھے۔ ان غیر معمولی کوششوں کی بنیاد پر گھنی آبادی اور متنوع حالات والے ہمارے وسیع ملک میں اس چنوتی کا سامنا کیا جا رہا ہے۔

ریاستی حکومتوں نے مقامی صورتحال کے مطابق کاروائی کی۔ عوام الناس نے پورا تعاون دیا۔ ان کوششوں سے ہم نے عالمی وبائی مرض کی سنگینی پر قابو رکھنے اور بہت بڑی تعداد میں عوام الناس کی زندگی کی حفاظت کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ پوری دنیا کے روبرو ایک قابل تقلید مثال ہے۔

قوم ان تمام ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر صحتی کارکنان کی ممنون ہے جو کورونا وائرس کے خلاف اس جنگ میں ہراول دستے کے سورما رہے ہیں۔ بدقسمتی سے، ان میں سے متعدد سورماؤں نے اس وبائی مرض کا مقابلہ کرتےہوئے اپنی زندگی قربان کر دی ہے۔

یہ ہمارے ملک کے مثالی خدمات سورما ہیں۔ ان کورونا سورماؤں کی جتنی بھی ستائش کی جائے وہ کم ہے۔ یہ تمام سورما اپنے فرائض کی حدود سے اوپر اٹھ کر لوگوں کی جان بچاتے ہیں اور ضروری خدمات کی فراہمی کو یقینی بناتے ہیں۔ ایسے ڈاکٹر، صحتی کارکنان، ہنگامی حالات کا انتظام کرنے والے دستوں کے اراکین، پولیس ملازمین، صفائی ملازمین، ڈلیوری عملہ، نقل و حمل، ریل اور ہوابازی کارکنان مختلف اقسام کی خدمات فراہم کرنے والے، سرکاری ملازمین، سماجی خدمت گار تنظیمیں اور فیاض شہری، اپنی جرأت اور بے لوث خدمت کی لائق ترغیب مثالیں پیش کر رہے ہیں۔

دیکھیں ویڈیو

جب گاؤں اور شہر میں کام کاج رک جاتا ہے، اور سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں، تب اپنی لگاتار محنت سے یہ کورونا سورما اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ لوگوں کو صحتی خدمات اور راحت، پانی اور بجلی، نقل و حمل اور مواصلاتی سہولت، دودھ اور سبزی، خوراک او ر کیرانے کا سامان، دوا اور دیگر ضروری سہولتوں سے محروم نہ ہونا پڑے۔ وہ اپنی جان کو بھاری جوکھم میں ڈالتے ہیں تاکہ ہم سب اس وبائی مرض سے محفوظ رہیں اور ہماری زندگی اور ہماری روزی روٹی دونوں چلتی رہے۔

اسی دوران مغربی بنگال اور اوڈیشہ میں آئے امفن سمندری طوفان نے بھاری نقصان پہنچایا جس سے ہماری چنوتیوں میں اضافہ ہوگیا۔اس قدرتی آفت کے دوران جان مال کے خسارے کو کم کرنے میں ہنگامی حالات کا انتظام کرنے والے دستوں ، مرکز اور ریاستوں کی ایجنسیوں اور بیدار مغز شہریوں کی متحدہ کوششوں سے کافی امداد حاصل ہوئی۔ شمال مشرقی اور مشرقی ریاستوں میں اہل وطن کو سیلاب کی آفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔اس طرح کی قدرتی آفات کے درمیان سماج کے تمام طبقات کے لوگ متحد ہوکر مصیبت زدگان کی مدد کرنے کے لئے آگے آرہے ہیں۔

میرے عزیز ہم وطنو، اس وبائی مرض کا سب سے سخت حملہ غریبوں اور روزمرہ روزی روٹی کمانے والوں پر ہوا ہے۔ آزمائش کے اس عہد میں ان کو سہارا دینے کے لئے وائرس کی روک تھام کی کوششوں کے ساتھ ساتھ متعدد عوامی فلاحی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ’پردھان منتری غریب کلیان یوجنا‘ کا آغاز کرکے سرکار نے کروڑوں لوگوں کو روزی روٹی فراہم کی ہے تاکہ وبائی مرض کی وجہ سے نوکری گنوانے والے، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے اور زندگی کے درہم برہم ہونے کے درد کو کم کیا جا سکے۔ عوام الناس کی مدد کے لئے، حکومت متعدد اقدامات کر رہی ہے۔ ان کوششوں میں، کارپوریٹ سیکٹر، شہری مہذب سماج اور شہریوں کا مکمل تعاون حاصل ہو رہا ہے۔

کسی بھی کنبے کو بھوکا نہ رہنا پڑے، اس کے لئے ضرورت مندلوگوں کو مفت اناج فراہم کیا جا رہا ہے۔ مفت اناج دستیاب کرانے، دنیا کی سب سے بڑی اس تحریک کو نومبر 2020 تک توسیع دے دی گئی ہے۔ اس تحریک سے ہر مہینے لگ بھگ 80 کروڑ لوگوں کو راشن ملنا یقینی بنایا گیا ہے۔ راشن کارڈ کے حاملین پورے ملک میں کہیں بھی راشن لے سکیں اس کے لئے تمام ریاستوں کو وَن نیشن ۔ وَن راشن کارڈ اسکیم کے تحت لایا جا رہا ہے۔

دنیا میں کہیں پر بھی مصیبت میں پھنسے ہمارے لوگوں کی مدد کرنے کے لئے پابند عہد، حکومت کی جانب سے وندے بھارت مشن کے تحت 10 لاکھ سے زائد بھارتیوں کو اپنے وطن واپس لایا جا رہا ہے۔ بھارتی ریل کے ذریعہ اس چنوتی بھرے وقت میں ریل خدمات چلاکر اشیاء اور افراد کی نقل و حمل کو ممکن بنایا گیا ہے۔

اپنی اہلیت میں یقین کے بل بوتے پر ہم نے کووِڈ۔19 کے خلاف لڑائی میں دیگر ممالک کی جانب بھی مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ دیگر ممالک کی درخواست پر، دواؤں کی بہم رسانی کرکے ہم نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کیا ہے کہ بھارت آمائش کی گھڑی میں عالمی برادری کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔ علاقائی اور عالمی سطح پر وبائی مرض کا سامنا کرنے کے لئے مؤثر حکمت عملیاں وضع کرنے میں ہمارا سرکردہ حصہ رہا ہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت کے لئے، حال ہی میں منعقدہ انتخابات میں حاصل ہوئی بڑی حمایت، بھارت کے تئیں عام بین الاقوامی خیر سگالی کا ثبوت ہے ۔

بھارت کی روایت رہی ہے کہ ہم صرف اپنے لیے نہیں جیتے ہیں بلکہ پوری دنیا کے فلاح کے جذبے کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ بھارت کی خود پر انحصار کرنے کی صلاحیت کا مطلب بذاتِ خود اہل ہونا ہے۔ دنیا سے علیحدہ ہونے یا دوری بنانا نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بھارت عالمی بازار میں شامل بھی رہے اور اپنی خاص شناخت بھی قائم رکھے ۔

عزیر ہم وطنو، آج عالمی برادری ’وسودھیو کٹمب کم‘، یعنی پوری دنیا ایک ہی کنبہ ہے، کی اس روایت کو تسلیم کر رہی ہے جس کا اعلان ہماری روایت میں بہت پہلے کر دیا گیا تھا۔ لیکن آج جب عالمی برادری کے روبرو سب سے بڑی چنوتی سے متحد ہوکر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، تب ہمارے ہمسایے نے اپنی توسیع پسندانہ سرگرمیوں کو عیاری سے انجام دینے کی کوشش کی۔ سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے ہمارے بہادر جوانوں نے اپنی زندگیاں قربان کر دیں۔ مادرِ ہند کے وہ سپوت وقار قوم کے لئے ہی زندہ رہے اوراسی پر مر مٹے۔

پورا ملک گلوان گھاٹی کے شہدا کو سلام کرتا ہے۔ ہر اہل ہند کے دل میں ان کے کنبوں کے اراکین کے تئیں اظہار تشکر کا جذبہ کارفرما ہے۔ ان کی بہادری نے یہ دکھادیا ہے کہ اگرچہ ہم امن میں یقین رکھتے ہیں پھر بھی اگر کوئی بد امنی پھیلانے کی کوشش کرے گا تو اس کو معقول جواب دیا جائے گا۔ ہمیں اپنے مسلح دستوں، پولیس اور نیم فوجی دستوں پر فخر ہے جو سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں اور ہماری داخلی سلامتی کو یقینی بناتے ہیں۔

دیکھیں ویڈیو

میرا ماننا ہے کہ کووِڈ۔19 کے خلاف جدوجہد میں زندگی اور روزی روٹی دونوں کی حفاظت پر توجہ مرکوز کرنی ضروری ہے۔ ہم نے اپنے موجودہ مسئلے کو سب کے مفاد میں بطور خاص کاشتکاروں اور چھوٹےصنعت کاروں کے مفاد میں، معقول اصلاحات متعارف کراکے معیشت کو از سر نو رفتار فراہم کرنے کے موقع کی شکل میں دیکھا ہے۔ زراعت کے شعبے میں تاریخی اصلاحات کی گئی ہیں۔ اب کاشتکار بغیر کسی رکاو ٹ کے ملک میں کہیں بھی اپنی پیداوار فروخت کرکے اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت حاصل کر سکتے ہیں۔ کاشتکاروں کو ریگولیٹری بندشوں سے آزاد کرنے کے لئے لازمی اشیاء ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے۔ اس سے کاشتکاروں کی آمدنی میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔

میرے عزیز ہم وطنو، 2020 میں ہم سب نے کئی اہم سبق سیکھے ہیں۔ ایک نادیدہ وائرس نے اس مفروضے کا خاتمہ کر دیا ہے کہ فطرت انسان کے تابع ہے۔ میرا ماننا ہے کہ صحیح راہ اپنا کر فطرت کے ساتھ تال میل پر مبنی اندازِ حیات کو اپنانے کا موقع بنی نوع انسان کے سامنے اب بھی موجود ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی طرح اس وبائی مرض نے بھی یہ بیداری بھی پیدا کی ہے کہ عالمی برادری کے ہر رکن کا مقدر ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے۔

میرا اندازِ فکر یہ ہے کہ موجودہ پس منظر میں ’اقتصادیات پر مرتکز شمولیت ‘سے زیادہ اہمیت ’انسانیت پر مرتکز تعاون‘ کی ہے۔ یہ تبدیلی جتنی زیادہ وسیع ہوگی بنی نوع انسان کا اتنا ہی بھلا ہوگا۔ اس میں اکیسویں صدی کو اس صدی کی شکل میں یاد کیا جانا چاہئے جب بنی نوع انسان نے باہمی اختلافات کو فراموش کرکے مادرِ ارض کی حفاظت کے لئے متحدہ کوششیں کیں۔

دوسرا سبق یہ ہے کہ فطرت کی شکل میں ماں کی نظر میں ہم سب یکساں حیثیت رکھتے ہیں اور اپنی زندگی کی حفاظت اور ترقی کے لئے بنیادی طور پر اپنے آس پاس کے افراد پر انحصار کرتے ہیں۔ کورونا وائرس انسانی معاشرے کے ذریعہ قائم کی گئی مصنوعی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا۔اس سے اس یقین کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ انسانوں کے ذریعہ پیدا کیے گئے ہر طرح کے خناس اور حدود سے ہمیں اوپر اٹھنے کی ضرورت ہے۔ اہل ہند میں باہمی تعاون اور جذبہ ترحم دکھائی دیتا ہے۔ ہمیں اپنے برتاؤ میں اس خوبی کو اور زیادہ شامل کرنا چاہئے، تبھی ہم سب کے لئے بہتر مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں۔

تیسرا سبق، صحتی خدمات کو اور مضبوط کرنے سے مربوط ہے۔ سرکاری اسپتالوں اور تجربہ گاہوں نے کووِڈ۔19 کا سامنا کرنے میں سرکردہ کردار ادا کیا ہے۔ عوامی صحتی خدمات کی وجہ سے ناداروں کے لئے اس وبائی مرض کا سامنا کرنا ممکن ہو پایا۔ اس لیے ان عوامی صحتی سہولتوں کو اور زیادہ وسیع اور مستحکم بنانا ہوگا۔

چوتھا سبق، سائنس اور تکنالوجی سے متعلق ہے۔ اس عالمی وبائی مرض سے سائنس اور تکنالوجی کو تیزی سے ترقی دینے کی ضرورت پر اور زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ لاک ڈاؤن اور اس کے بعد بتدریج ان لاک کے عمل کے دوران تعلیم، روزی روٹی، دفاتر کے کام کاج اور سماجی رابطہ کاری کے مؤثر ذرائع کی شکل میں اطلاعات اور مواصلاتی تکنالوجی کو اپنایا گیا ہے۔ اس وسیلے کی مدد سے تمام ہندوستانیوں کی زندگی بچانے اور کام کاج کو پھر سے شروع کرنے کے مقاصد کو ایک ساتھ حاصل کرنے میں مدد ملی ہے۔

مرکز اور ریاستی سرکاروں کے دفاتر، اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے بڑے پیمانے پر ورچووَل انٹر فیس کا استعمال کر رہے ہیں۔ انصاف کی فراہمی کے لئے عدلیہ نے ورچووَل کورٹ کی کاروائی کو اپنایا ہے۔ ورچووَل کانفرنس منعقد کرنے اور دیگر متعدد سرگرمیوں کی تکمیل کے لئے راشٹرپتی بھون میں بھی ہم تکنالوجی کا استعمال کرر ہے ہیں۔ آئی ٹی اور مواصلاتی آلات کی مدد سے فاصلاتی تعلیم اور ای۔ لرننگ کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ کئی شعبوں میں اب گھر سے کام کرنے کا ہی رواج ہو گیا ہے۔ تکنالوجی کی مدد سے سرکاری اور نجی شعبوں کے متعدد اداروں کے ذریعہ عام سطحوں سے کہیں زیادہ کام کاج کرکے معیشت کو رفتار عطا کی گئی ہے۔ اس طریقے سےہم نے یہ سبق سیکھا ہے کہ فطرت سے تال میل بنا کر رکھتے ہوئے سائنس اور تکنالوجی کو اپنانے سے ہمارے وجود اور ترقی کی ہمہ گیری کو برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل ہوگی۔

یہ سبھی سبق پوری انسانیت کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔ آج کی نوجوان نسل نے انہیں بخوبی اپنایا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں بھارت کا مستقبل محفوظ ہے۔

یہ دور ہم سبھی کے لئے دشوار گزار دور ہے ۔ ہمارے نوجوانوں کے مسائل تو اور بھی سنگین نظر آتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے بند ہونے سے ہمارے بیٹے بیٹیوں میں تشویش پیدا ہوئی ہوگی اور وہ فی الحال اپنے خوابوں اور اپنی توقعات کو لے کر متفکر ہوں گے۔ میں انہیں یہ بتانا چاہوں گا کہ اس مسئلے پر ہم قابو حاصل کریں گے اور اس کے لئے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی کوششوں میں آپ تمام نوجوانوں کو لگاتار مصروف رہنا چاہئے۔ تاریخ میں ایسی لائق ترغیب مثالیں موجود ہیں جہاں بڑے مسائل اور چنوتیوں کے بعد سماجی، اقتصادی اور قومی احیاء اور تعمیر نو کا کام نئی توانائی کے ساتھ کیا گیا۔ مجھے اعتماد ہے کہ ہمارے ملک اور نوجوانوں کا مستقبل تابناک ہے۔

ہمارے بچوں اور نوجوانوں کی ضرورتوں کے مطابق تعلیم فراہم کرنے کی غرض سے مرکزی حکومت نے حال ہی میں قومی تعلیمی پالیسی نافذ کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔ مجھے اعتماد ہے کہ اس پالیسی سے، خوبی سے آراستہ ایک نیا تعلیمی نظام وضع ہوگا جو مستقبل میں آنے والی چنوتیوں کو مواقع میں بدل کر نئے بھارت کا راستہ ہموار کرے گا۔ ہمارے نوجوانوں کو اپنی پسند اور اپنی صلاحیت کے مطابق اپنے مضامین کو منتخب کرنے کی آزادی ہوگی۔ انہیں اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کا موقع حاصل ہوگا۔ ہماری مستقبل کی پیڑھی اس استعداد کے بل پر نہ صرف روزگار پانے میں کامیاب ہوگی بلکہ دوسروں کے لئے بھی روزگار فراہم کرے گی۔

قومی تعلیمی پالیسی ایک دور اندیشانہ اور دور رَس پالیسی ہے۔ اس سے تعلیم میں شمولیت، اختراع اور ادارے کی ثقافت کو مضبوطی حاصل ہوگی ۔ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت مادری زبان میں پڑھائی کرنے کو اہمیت دی گئی ہے جس سے عہد طفولیت میں بچہ فطری انداز میں نشو و نما حاصل کر سکے گا۔ ساتھ ہی ساتھ اس سے بھارت کی تمام زبانوں اور بھارت کے اتحاد کو ضروری قوت حاصل ہوگی۔ کسی بھی ملک کو طاقت ور بنانے کے لئے اس کے نوجوانوں کی اختیارکاری لازمی ہوتی ہے اور قومی تعلیمی پالیسی اس سمت میں ایک بڑا قدم ہے۔

عزیز ہم وطنو، صرف دس دن پہلے اجودھیا میں شری رام جنم بھومی پر رام مندر کی تعمیر کا آغاز ہوا ہے اور اہل ہند کو تفاخر کا احساس ہوا ہے۔ اہل ہند نے طویل عرصے تک تحمل اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا اور ملک کی عدلیہ کے نظام میں ہمیشہ اعتماد برقرار رکھا۔ شری رام جنم بھومی سے متعلق عدالتی عمل کو بھی معقول عدالتی عمل کے تحت سلجھایا گیا۔ تمام فریقوں اور اہل وطن نے عدالت عظمی کے فیصلے کو پورے احترام کے ساتھ تسلیم کیا اور امن، عدم تشدد اور محبت اور خیر سگالی کے اپنی زندگی کی اقدار کو پوری دنیا کے سامنے ازسر نو پیش کیا۔ اس کے لئے میں تمام اہل وطن کو بدھائی دیتا ہوں۔

میرے عزیز ہم وطنو، جب بھارت نے آزادی حاصل کی ، تو کچھ لوگوں نے یہ اندیشہ جتایا تھا کہ جمہوریت کا ہمارا تجربہ کامیاب نہ ہوگا۔ وہ ہماری قدیم روایات اور کثیر پہلوئی تنوع کو، ہماری ریاستی انتظام کے جمہوری شکل اختیار کرنے کے راستے میں رکاوٹ خیال کرتے تھے۔ لیکن ہم نے اپنی روایات اور تنوع کو ہمیشہ اپنی طاقت سمجھ کر انہیں پروان چڑھایا ہے اور اس لیے دنیا کی یہ سب سے بڑی جمہوریت اتنی فعال ہے۔ انسانیت کی بھلائی کے لئے بھارت کو سرکردہ کردار ادا کرتے رہنا ہے۔

آپ تمام اہل وطن، اس عالمی وبائی مرض کا سامنا کرنے میں جس دانش مندی اور تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کی ستائش پوری دنیا میں ہو رہی ہے۔ مجھے اعتماد ہے کہ آپ اسی طرح چوکسی اور ذمہ داری بنائے رکھیں گے۔

ہمارے پاس عالمی برادری کو دینے کے لئے بہت کچھ ہے، بطور خاص ذہنی، روحانی اور امن عالم کے شعبے میں اسی عوامی بہبود کے جذبے کے ساتھ میں دعا کرتا ہوں کہ مکمل دنیا کی فلاح ہو۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details