اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

اپنوں کے ستائے کو کون پوچھے؟ - 33 آشرم

عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے، سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے انداز میں ووٹروں کو راغب کرنے میں مصروف ہیں لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کی طرف کسی سیاسی جماعت یا کسی بھی سیاسی رہنما کی نظر نہیں جاتی۔

اپنوں کے ستائے کو کون پوچھے؟

By

Published : Apr 11, 2019, 9:55 PM IST

قابل ذکر ہیکہ ان کے اپنوں نے بھی انھیں نظر انداز کردیا ہے۔

جی ہاں ہم بات کررہے ہیں ان بزرگ مرد و خواتین کی جو اولڈ ایج ہوم میں کسم پرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

اپنوں کے ستائے کو کون پوچھے؟

سماج سے ٹھکرائے ہوئے یہ لو گ کیسی حکومت چاہتے ہیں؟ ان کے اپنے مسائل کیا ہیں؟ حکومت سے انھیں کیا امیدیں وابستہ ہیں یہ جاننے کی کوشش کی ہمارے نمائندے اورنگ آباد سے اِسرار الدین چشتی نے۔


اورنگ آباد کا ماتو شری وردھ آشرم (اولڈ ایج ہوم) شہر کے عمر رسیدہ افراد کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں لیکن جنھیں اپنوں نے ٹھکرادیا انھیں دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت مطمئن نہیں کرسکتی ایسا ہی کچھ حال ماتوشری آشرم کے بزرگوں کا بھی ہے، اس آشرم میں پناہ لینے والے بے سہارا بزرگوں کی تعداد تقریباً ایک سو بارہ ہے۔

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے ان کے حالات جاننے کی کوشش کی۔

جب ان بزرگوں سے پوچھا گیا کہ ان کی حکومت سے کیا توقعات ہیں تو انہوں نے کہا کہ حکومت کوئی بھی آئے اس سے ان کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا ۔

تاہم کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو بزرگوں کی طرف توجہ دینی چاہیئے، کم از کم ان کے طعام و قیام اور علاج و معالجے کا انتظام تو ہونا ہی چاہیئے ۔

مہاراشٹر میں حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے (اولڈ ایج ہوم) کی تعداد 24 ہے جن میں سے آٹھ مراٹھواڑہ میں واقع ہیں اس کے علاوہ حکومت کی امداد سے ریاست گیر سطح پر 33 آشرم چلائے جاتے ہیں۔

حکومت کی امداد پر تکیہ کرنے والے آشرموں میں پناہ گزینوں سے ماہانہ فیس لی جاتی ہے لیکن بے سہارا افراد کو تمام سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

اپنوں سے الگ ہوئے ان بزرگ افراد کے لیے وقتی سہارا بھی کافی اہمیت رکھتا ہے ۔

ووٹ دینا یہ اپنا بنیادی حق مانتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ حکومت کو ان سے اور ان کو حکومت کوئی سرو کار نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل میں حالات بدلنے کے آثار نظر آتے ہیں۔

ماتو شری آشرم میں رہنے والے افراد کا کہنا ہیکہ حکومت انہیں اس حد تک سہولیات مہیا کرادے کہ انہیں کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔

اس تعلق سے وہ بیرونی ملکوں کی مثال پیش کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جب وہ ممالک اپنے بزرگوں کی ذمہ داری اٹھا رہے ہیں تو ہمارے ملک میں ایسا ممکن کیوں نہیں؟

انہوں نے پراعتماد لہجے میں کہا کہ ایسا جس دن ہوجائے گا راستے پر آپ کو کوئی فقیر نظر نہیں آئیگا۔

زندگی سے مایوس ان بزرگوں کو اب اگر کوئی امید اور آسرا ہے تو صرف اتنا کہ ان کے آخری ایام سکون اور چین سے گزر جائیں لیکن کروڑوں کی بھیڑ میں کیا انکی نمائندگی کرنے والے ان کی آواز سن پائیں گے؟

یہ ایک سوال ہے جس کا جواب مثبت میں ملے گا اس کے آثار کم ہی ہیں ۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details