پلاسٹک کچرے کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک مکینیکل انجینئر نے پلاسٹک کے فُضلے کو ایندھن میں تبدیل کرنے کا دعوی کیا ہے۔
ملک بھر میں لوگ اپنی سطح پر پلاسٹک کے خاتمے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ تاہم ستیش کمار ان سے قدرے مختلف ہیں۔ ستیش حیدرآباد میں مقیم ایک مکینیکل انجینئر ہیں، جو ناقابل استعمال پلاسٹک سے مصنوعی ایندھن تیار کر رہے ہیں۔
پلاسٹک سے تیار شدہ پٹرول گاڑی میں ڈالتے ہوئے ستیش نے بتایا کہ یہ ایک انوکھا طریقہ ہے، جسے انہوں نے چمنی اور پانی کے بغیر پلاسٹک کو پروسیس کے لیے 6 برس قبل شروع کیا تھا۔ اس طرح اگر اچھا پلاسٹک ہو تو ایک کلو پلاسٹک سے ایک لیٹر تیل تیار کیا جا سکتا ہے۔
ستیش تین مرحلوں میں اس عمل کو انجام دیتے ہیں، جہاں پلاسٹک گرم ہونے کے بعد ٹوٹتا ہے، گیس میں تبدیل ہوتا ہے اور پھر گاڑھا ہو جاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں تین طرح کے مصنوعی ایندھن یعنی ڈیژل، پٹرول اور گیس پیدا کیے جاتے ہیں۔
ستیش کا کہنا ہے کہ ان سبھی ایندھنوں کی تیاری کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، وہ پلاسٹک پائرولیسس سے مختلف ہے، اس سے باقیات نہیں نکلتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس عمل کے دوران پیدا ہونے والی گیس کی مدد سے جنریٹر چلایا جاتا ہے، اور کاربن فضلہ پودوں میں کھاد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
لوگوں کے لباس کا تقریبا 80 فیصد حصہ پلاسٹک سے تیار ہوتا ہے۔ تمام طرح کی مٹھائیاں اور طبی سامان پلاسٹک پر مبنی ہیں۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ، لوگ آج کل پلاسٹک کے بغیر نہیں رہ سکتے۔
ستیش کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کا استعمال ترک کرنے کے بجائے دانشمندی کے ساتھ اس کے استعمال کی ضرورت ہے۔ ان کا مقصد لوگوں کو یہ سمجھانا ہے، کہ پلاسٹک بھی ایک طرح کا ایندھن ہے، جسے چھوٹے پیمانے پر پروسیس کیا جا سکتا ہے۔
کمار کا ماننا ہے پلاسٹک کے استعمال سے متعلق سخت قوانین بنانے اور نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ بھی عائد کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ لوگ پلاسٹک کا استعمال دانشمندی سے کر سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں پانچ قسم کے فضلہ جات ہیں، جن میں شیشہ، دھات، کاغذ، پلاسٹک اور نامیاتی فضلے شامل ہیں۔ ان سب فضلوں سے دانشمندی کے ساتھ ہی موثر طریقے سے نمٹا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زمین پر پلاسٹک اس قدر وافر مقدار میں موجود ہے کہ اس کے بند ہونے کے بعد بھی پہلے سے جمع شدہ پلاسٹک کے فضلے سے نمٹنے میں برسوں کی مدت درکار ہے۔
ستیش کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کی طرح بیداری پیدا کرنے کے اقدامات صحیح طریقے سے کیے جائیں، تو بھارت پلاسٹک کا ختم ہونے والا مرکز بن سکتا ہے۔