اس ضمن میں این آئی ایچ، گلیڈ سائینسز اور اینٹی وائرل ڈرگ ریمڈیسور، اور اینٹی انفلمیٹری کی مدد سے مریضوں کا علاج کرنے کا مطالعہ کررہا ہے۔
اس پرفی الحال امریکہ میں کووڈ-19 مریضوں کے ایک ہسپتال میں ٹرائل ہورہا ہے۔ تاہم اس طریقہ علاج کی جانچ کے لیے ایک ہزار سے زیادہ ماہرین تحقیق کررہے ہیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفکشن ڈسیز کے ماہر انتھنی فوسی نے کہا کہ ٹیم یہ پتہ لگانے کی کوشش کررہی ہیکہ آیا اینٹی انفلمٹری اور ریمڈیسور کے امتزاج سے فائدہ ہوسکتا ہے یا نہیں۔ انھوں نے مزید کہا 'ہمارے پاس ایسے اعداد وشمار موجود ہیں جس سے کورونا مریضوں کواس طریقہ علاج سے فائدہ ہوگا'۔
امریکہ میں ریمیڈیسور طریقہ علاج میں زیادہ دلچسپی لی جارہی ہے۔ کیونکہ ابھی تک اس وبا کو روکنے کا منظور شدہ علاج یا ویکیسن کی ایجاد نہیں ہوئی۔ اور یہی وجہ ہیکہ امریکہ میں 70 ہزار سے زیادہ لوگ فوت ہوگئے۔
ریمڈیسویر کو 200 ملی گرام ،فورتھ ڈوز، کی خوراک کے طور پر دیا جاتا ہے ۔اس میں مریض کو علاج کے 10 دن کے کورس میں ہسپتال میں رکھ کر ایک دن میں 100 ملی گرام کی خوراک دی جاتی ہے۔
اور اس کے علاوہ بیریسیٹینب دوائی کو علاج معالجے کے 14 دن تک یا کورس کے مکمل ہونے تک 4 ملی گرام کا ،اورل ڈوز مریض کو دیا جاتا ہے۔
کووڈ-19 کی وجہ دنیا کےترقی یافتہ ممالک بشمول امریکہ بھی بے بس نظر آیا، کئی ممالک اس وبا کے لیے ابھی تک ویکسین کی ایجاد میں لگے ہیں۔ بھارت سرکار نے بھی محکمہ آیوش کو مشورہ دیا ہیکہ کورونا وائرس کو روکنے کی دوائی متعارف کرنے کے لیے ریسرچ کریں۔