اردو

urdu

ٹام الٹر جب مولانا ابوالکلام آزاد بنے۔۔۔۔۔۔

ٹام آلٹر کو بھلے ہی کوئی ان کے نام سے نہ جانتا ہوں لیکن بالی ووڈ مداحوں کے ذہن میں ٹام آلٹر کی پہنچان ایسے اداکار کے طور پر کی جاتی ہے جوبالی ووڈ فلموں میں زیادہ تر انگریز کا کردار ادا کرتا تھا۔

By

Published : Jun 22, 2019, 9:37 PM IST

Published : Jun 22, 2019, 9:37 PM IST

متعلقہ تصویر

ان کی پیدائش 22 جون 1950 کو اتراکھنڈ کے مسوری میں ہوئی۔

ٹام 18 برس کی عمر تعلیم کی غرض سے امریکی یونیورسٹی چلے گئے لیکن ان کا دل نہیں لگا اور وہ درمیان میں ہی وہاں سے واپس لوٹ آئے۔

اس کے بعد انہوں نے کئی نوکریاں کیں ۔ انہوں نے ہریانہ کے سینٹ تھامس اسکول میں ٹیچر کی بھی چھ مہینے تک نوکری کی۔

سپراسٹار راجیش کھنہ کی سال 1969 میں فلم ارادھنا نے ٹام آلٹر کو اتنا متاثر کیا کہ اب بس وہ راجیش کھنہ بننا چاہتے تھے۔

اسی ہفتے انہوں نے اس فلم کو تین مرتبہ دیکھا۔ دوسالوں تک انکے ذہن میں راجیش کھنہ اور شرمیلا ٹیگو چلتی رہیں۔

انہوں نے 2009میں ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ”میں راجیش کھنہ کا بہت بڑا فین رہا اور 1970کی دہائی میں ان کے جیسا ہیروبننا چاہتاتھا ،وہ میرے ہیروتھے۔ان کا رومانی انداز دل کو چھولیتا تھا۔

بطور ہیرو بننے کا خواب لے کر ٹام آلٹر نے پنے میں ہندستانی فلم اور ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا۔

ٹام نے 1974 میں ایف ٹی آئی آئی سے گریجویشن کے دوران گولڈ میڈل حاصل کیا۔

اسی دوران انہوں نے نصیر الدین شاہ اور بنجامن گیلانی کے ساتھ ایک کمپنی موٹلی قائم کیا اور ڈرامے کی دنیا میں قدم رکھا۔

ڈرامے میں انہوں نے مرزا غالب پر اسی نام کے پلے اور مولانا ابوالکلام آزاد پر مبنی پلے مولانا میں شاندار کردارا دا کئے جس کے لئے انہیں ہمیشہ یا د رکھا جائے گا۔

ٹام الٹر کو مشہور ٹی وی شو جنون میں ان کے کردار کیشوکلسی کے لئے جانا جاتا ہے۔

سنہ 1990 میں یہ شو مسلسل پانچ سال تک چلا۔ اس طرح ڈرامہ ،فلم اور ٹی وی شومیں وہ چھائے رہے۔

اردوکے ڈائیلاگ متاثرکن اور لب ولہجہ کے ساتھ اداکرتے تھے اور ان کا تلفظ بھی بہترین تھا ،ادب وشاعری سے بھی دلچسپی رکھتے رہے۔

ٹام آلٹر نے بالی ووڈ میں اپنے کیرئر کی شروعات سال 1976 میں فلم چرس سے کی۔

سال 1977 میں انہوں نے کیرول ایوانس سے شادی کی۔ ان کا ایک بیٹا جیمی اور ایک بیٹی افشاں ہے۔

فلم چرس کے بعد انہوں نے شطرنج کے کھلاڑی، دیش پریمی، کرانتی، گاندھی، رام تیری گنگا میلی، کرما، سلیم لنگڑے پے مت رو، پرندہ، عاشقی، جنون، ویر زرا، منگل پانڈے سمیت 300 سے زائد فلمو ں میں اپنی کارکردگی کے ہنر دکھائے۔

ٹام الٹر نے اپنے کیرئر کے دوران ستیہ جیت رے سے لے کر شیام بینگال تک ہندستانی فلم انڈسٹری میں تقریباً چوٹی کے تمام ہدایت کاروں کے ساتھ کام کیا۔

انہوں نے کئی بے حد معروف سیریل میں بھی کام کیا جس میں ہندستان ایک کھوج، زبان سنبھال کے ، بیتال پچیسی، حاتم، اور یہاں کے ہم سکندر، اہم ہیں۔

سنہ 1980 سے 1990 تک کے دوران ٹام الٹر اسپورٹس کے صحافی بھی رہے ۔ وہ ٹی وی پر سچن تندولکر کا انٹرویو لینے والے پہلے شخص تھے۔

سال 2008 میں انہیں فن اور سنیما کے شعبے میں بہترین خدمات کے لئے پدم شری ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ انہوں نے تین کتابیں بھی تصنیف کیں۔

ٹام الٹر ایک امریکی عیسائی مشنری فیملی سے تعلق رکھتے تھے،ان کے دادا 1916میں امریکہ کے اوہیو سے ہندوستان تشریف لائے اور مدراس پہنچنے کے بعد انہوں نے ریل گاڑی سے لاہور تک کا سفرکیا ۔

ان کے والد کی پیدائش سیالکوٹ میں ہوئی جوکہ اب پاکستان کا حصہ ہے۔ہندوستان کی 1947میں تقسیم کے بعدان کے دادا پاکستان میں رہ گئے اور والد بھارت آگئے ،جہاں انہوں نے الہ آباد،جبل پوراور سہارنپور میں قیام کیا اور پھر1954میں اترپردیش کے ایک چھوٹے سے قصبہ راج پورجوکہ دہرہ دون اور مسوری کے درمیان واقع ہے ،مستقل قیام کرلیا۔

ان کی بڑی بہن مرتھا چین نے پنسیلوانیا یونیورسٹی سے جنوبی ایشیائی مطالعہ میں پی ایچ ڈی کیا ہے اور ابھی جان ہارورڈ میں معلم ہیں اور شاعری کرتی ہیں۔

ٹام الٹر نے مسوری کے ووڈاسٹاک اسکول سے تعلیم حاصل کی اور ہندی اور اردوبھی پڑھتے رہے ،ان کے والد بھی بائبل کی تعلیمات اردو میں دیتے رہے اور 1962مین ہندی رائج ہوگئی ۔

ٹام الٹر نے اردو شاعری کے فن کو بھی سمجھا اور انہیں اس درمیان معروف فلمساز ستیہ جیت رائے کی فلم شطرنج کے کھلاڑی میں موقعہ ملا اورایک برطانوی افسر کی شکل میں ان کے رول کو فلم کرانتی میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

جبکہ 1993میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کی زندگی پر بنی فلم ’سردار ‘میں وہ برما کے لارڈ ماونٹ بیٹن بنے تھے۔

انہوں نے ہالی ووڈ کے فلمساز پیٹر اوٹولی کی فلم ’ون ٹائٹ وتھ دی کنگ ‘ میں بہترین اداکاری کے جوہر دکھائے ۔1996میں ایک آسامی فلم ’ادجیا ‘ میں کام کیا ۔

ٹام الٹر ایک مصنف بھی تھے اور انہوں نے لانگیسٹ ریس ،ری رن اٹ ریلٹو اور بیسٹ ان دی ورلڈ نامی کتابیں لکھی ہیں۔

انہیں کرکٹ میں خاصی دلچسپی تھی اور اس لئے اسپورٹس صحافی کے طورپر بھی خدمت انجام دی اور کئی رسالوںمیں تبصرے لکھتے رہے۔فلمی صنعت کی ٹیم کے لیے بھی کرکٹ کھیلتے رہے۔

ستمبر 2017کے آغاز میں انہیں جلد کا کینسرکا پتہ چلا اور 29ستمبر کی شب میں انہوں نے موت کو گلے لگا لیا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details