اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

جامع جنسی تعلیم و تربیت کی ضرورت - Family Planning

عالمی وبا کورونا وائرس (کووڈ ۔19) جنسی تعلیم (سیکس ایجوکیشن) کو جامع، قابل مطالعہ اور قابل فہم بنانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔اس ضمن میں فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف انڈیا کے تکنیکی پروگرام کے منیجر ڈاکٹر نلیش پاٹل نے تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے۔

need for inclusive and comprehensive sex education by Dr. Nilesh Patil, Technical Programme Manager at Family Planning Association of India
جنسی تعلیم کے بارے میں تھوڑی بہت بیداری بھی آئی ہے

By

Published : Dec 24, 2020, 11:11 AM IST

اگرچہ پچھلی چند دہائیوں میں بھارتی معاشرہ ایک زبردست معاشرتی تغیر کی طرف آگے بڑھ رہا اور سماجی، سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی تبدیلیاں رو نما ہورہی ہیں۔تو وہیں جنسی تعلیم و تربیت کی بات کی جائے تو ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

عالمی وبا کورونا وائرس (کووڈ ۔19) کی وجہ سے اسکولز کی بندش نے جنسی تعلیم کی جو بھی وسائل دستیاب تھے، ان سب کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

  • آن لائن تعلیم اور طلبا کی نفسیات:

اساتذہ اور طلبا کا تعلق، کمرہ جماعت میں اجتماعی مطالعہ اور دیگر سرگرمیاں متاثر ہو گئی ہیں اور طلبا اپنے گھروں تک محدود ہوگئے ہیں۔یہ طلبا اپنی تعلیم کے لیے آن لائن کلاسیز پر انحصار کررہے ہیں۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت موبائیل یا کمپوٹر کی اسکرینز پر گزار رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی تعلیمی توجہ برقرار نہیں رہ پاتی، تو وہیں نفسیاتی بے چین اور دباؤ محسوس کرتے ہیں۔

جنسی تعلیم کے بارے میں تھوڑی بہت بیداری بھی آئی ہے

آن لائن کلاسیز کی وجہ سے طلبا اپنے ہم جماعت ساتھیوں کی 'رفاقت' سے محروم ہیں۔دیگر دوستوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ بہت زیادہ اکیلا پن محسوس کررہے ہیں۔ اسی لیے کوئی بھی اجتماعی سرگرمی انجام نہی ںدے رہے ہیں۔ ان کے اندر تفتیشی طور پر کوئی بھی نئی چیز سمجھنے کی روح اب زیادہ مشکل نظر آرہی ہے۔

  • آن لائن چیلنجز کا مقابلہ اور جنسی تعلیم:

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ طلبا کے آن لائن زیادہ وقت گزارنے کے ساتھ سائبر بدمعاشی (بلنگ) اور آن لائن ہراساں ہونے کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جنسی تعلیم اور تربیت کے بغیر ان سب چیلنجز کا مقابلہ بہت مشکل ہے۔ اسی لیے عالمی وبا کورونا وائرس (کووڈ ۔19) جنسی تعلیم (سیکس ایجوکیشن) کو جامع، قابل مطالعہ اور قابل فہم بنانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

انٹرنٹ کی تیزرفتاری (ہائپر انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی) اور وبائی بیماری سے متاثر اس دور میں جنسی تعلیم کے نقطہ نظر اور طریقہ کار دونوں میں ایک تبدیلی کی ضرورت ہے۔

روایتی نقطہ نظر کے ساتھ جدید تقاضوں کو پیش نظر کر کئی چیزیں طے کرنا ہوگا تاکہ جنسی تعلیم کو واقعی قابل فہم، ترقی پسند، صنفی غیر جانبدار اور مروجہ ماحول کے مطابق مہیا کی جاسکے۔

  • جنسی تعلیم کے ضمن میں بیداری:

یہ صرف جنسی تعلیم کی بے حد کمی ہی ہےکہ ملک کے بڑے حصوں میں جنسی ہراسانی بڑھتی ہی جارہی ہے اور جسمانی خود اخیتاری کی خلاف ورزی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس حالیہ برسوں میں جنسی تعلیم کے بارے میں تھوڑی بہت بیداری بھی آئی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ رضامندی، خلاف ورزی اور جنسی زیادتی کے مابین پائے جانے والے فرق کو نہیں سمجھا جاتا ہے اور بدکاری صرف ان واقعات کو سمجھا جاتا ہے، جو منظر عام پر ؤتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے بچوں کا فنڈ یعنی یونیسف اور انسٹی ٹیوٹ فار سوشل ڈویولپمنٹ (پرایاس) نامی ایک این جی او کے ذریعہ بھارتی وزارت برائے خواتین اور بچوں کی ترقی کی ایک تحقیق کے مطابق 5 اور 12 برس کی عمر کے بچوں کو 53٪ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس طرح کے زیادہ تر واقعات میں مجرم متاثرین کے قریبی رشتہ دار تھے، اور ان تمام معاملات میں سے نصف سے زیادہ کسی بھی طرح رپورٹ نہیں ہوئے ہیں۔

  • ایک وسیع تر نظریہ کی ضرورت:

بھارت میں جنسی تعلیم کو نوعمر بچوں کی نفسیات کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ اس کو حمل اور ایچ آئی وی / ایڈز کا کو دعوت دینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ کم سن بچوں کے لیے جنسی تعلیم مہیا کرانے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔

اس ضمن میں جنس یا صنف کی شناخت، واقفیت اور تنوع کے مطابق اس موضوع کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے اور اس کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ جنسی تعلیم کو بطور لازمی مضمون ضروری ہونے کے باوجود ابھی بھی بہت سارے اسکول اور دیگر ادارے ایسے ہیں جن کے نصاب میں جنسی تعلیم کی کوئی شکل نہیں ہے۔

  • مواد، اساتذہ کی قلت اور وسائل کے کمے:

یوتھ کولیشن فار سیکچول اینڈ ری پروڈیکٹیو رائٹز کی ایک رپورٹ کے مطابق سیکنڈری تعلیم کے بیشتر اسکولولز نجی اور عوامی ریاستی بورڈز کے اپنے نصاب میں جنسی نوعیت کی تعلیم کو یا تو سرے سے مہیا ہی نہیں کرتے یا پھر ان کے پاس اس کے لیے مواد، اساتذہ کت تربیت اور دیگر وسائل دستیاب نہیں ہے۔

حکومت ہند نے نیشنل ایڈز کنٹرول آرگنائزیشن (این اے سی او) اور اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسف) کے اشتراک سے 2007 میں 'ایجوزینٹ ایجوکیشن پروگرام' (اے ای پی) شروع کیا تھا۔ اسی برس اس کی شروعات حکومت نے تمام ریاستوں میں کی تھی۔

مزید پڑھیں:'جب اہل خانہ ہی لڑکیوں کے ساتھ امتیاز کریں گے تو غیروں سے کیا توقع کی جائے'

ایم ایچ آر ڈی نے اس اقدام کو درست، مناسب اور ثقافتی لحاظ سے متعلقہ معلومات کے حامل قرار دیا۔ جس کے مقاصد نوجوانوں کو بااختیار بنانے، صحت مند رویوں کو فروغ دینے اور ہنر مندانہ صلاحیتوں کو فروغ تھا اور اس سمت اس کو ایک اہم اقدام سمجھا جارہا ہے۔تاکہ وہ مثبت طریقوں سے حقیقی زندگی کے حالات کا جواب دینے کے قابل بنے، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا اور اس کے بعد 12 سے زائد ریاستوں میں اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ جنھوں نے اس تعلیم کو 'نامناسب' قرار دیا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details