اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

'شاعری نعمت الہی ہے' - پروفیسر آفتاب احمد آفاقی

شاعری محض عشق بازی یا فنون طبع کا سامان نہیں بلکہ یہ نعمت الہی ہے،اس لیے فنکار کی سوچ میں مثبت پہلو، اصلاح معاشرہ کا غرض اور منفی افکار کو مسمار کر دینے جذبہ ہونا چاہیے۔

'شاعری نعمت الہی ہے'

By

Published : Jul 29, 2019, 11:53 PM IST

شاعری حیات انسانی کے انفرادی و اجتماعی احساس کا تخلیقی اظہار ہے، یہ ہمارے خوبصورت احساس کی آسودگی ہی نہیں بلکہ ہمارے فکر و شعور کو بھی جلا بخشتی ہے

مذکورہ خیالات کا اظہار بی ایچ یو کے پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے کی۔

ریاض میں مقیم اردو کے معروف شاعر ظفر محمود ظفر کے بنارس آمد پر ان کے اعزاز میں ایک خصوصی ادبی و شعری نشست کا انعقاد کیا گیا۔

اس نشست کی صدارت کہنہ مشق شاعر اور صحافی اشعر رام نگری نے کی۔

'ایک شام ظفر محمودظفر کے نام' کے عنوان سے منعقدہ اس ادبی نشست میں پروفیسر آفتاب احمد آفاقی مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے۔

شاعری کے اوصاف بیان کرتے ہوئے آفتاب احمد آفاقی نے کہا کہ تیز رفتاری، مادیت پرستی اور شکست و ریخت کے اس دور میں آشفتہ حال زندگی کو ادب اور شاعری سکون عطا کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شاعری محض عشق بازی یا فنون طبع کا سامان نہیں بلکہ یہ نعمت الہی ہے،اس لیے فنکار کی سوچ میں مثبت پہلو، اصلاح معاشرہ کا غرض اور منفی افکار کو مسمار کر دینے جذبہ ہونا چاہیے۔

صدر محفل جناب اشعر رام نگری نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمائیل علیہ السلام کے تاریخی واقعات کے حوالے سےایک طویل نظم پڑھی،اس نظم کے خوبصورت اشعار نے ایک پر کیف سما باندھ دیا۔

معروف شاعر شاد عباسی نے 'قلم'کے عنوان سے ایک خوبصورت نظم پڑی اس شعری نشست میں شریک شعرا حضرات کے کچھ منتخب اشعار درج ذیل ہیں۔

نہ حاصل ہوگا کچھ آہ و فغاں سے
مدد آتی نہیں یوں آسماں سے
نظر تو آئیں گے سب مہرباں سے
مگر وہ ساتھ دینگیں بس زباں سے
ڈاکٹر اختر مسعود (پسر مرحوم حفیظ بنارسی )

زندگی غم سے مزین فہم ذیشانی نہیں
لب پہ شکوہ بھی نہیں چاک گریباں بھی نہیں
(محمد ذکریہ عادل بنارسی)

جہاں ناکام ہو جائے تکلم
وہاں جنبش قلم کی بولتی ہے
بہت حسین ہے اب کے جنون کا موسم
ہمارے پاؤں کی زنجیر دیکھنے آنا
(ڈاکٹر بختیار نواز)

عبدالرحیم صاحب نے ایک نظم بعنوان 'جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں' پڑھی، جس کے ابتدائی اشعار کچھ اس طرح تھے۔

خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن و اماں کا خون ہےآخر

دکھاوے کا ہے پیار جس کے لبوں پر
وہی آج کل سب کو پیارا بہت ہے
سچ کہوں تو یقیں نہیں کرتے
جھوٹ بولوں تو اعتبار آئے
(عالم بنارسی)

جتائے چاہے جتنا لیکن ایسا ہو نہیں سکتا
جو قاتل ہے کبھی میرا مسیحا ہو نہیں سکتا
جاتا کہاں اشکوں کا امڑتا ہوا سیلاب
اچھا ہے کہ گنگا کے کنارے میرا گھر ہے
(زم زم رام نگری)

ہوا کے زور پےجب بادبان کھلتے ہیں
تو کشتیاں سر دریا اترنے لگتے ہیں
کس تعلق کی بات کرتے ہو
وہ تعلق جو کبھی تھا ہی نہیں
(خالد جمال)

نشست میں تشریف لائے سوامی اوم دی اق نے دو نظمیں پڑھیں، ساتھ ہی کچھ دیگر اشعار بھی پڑھے۔

انھوں نے تھام رکھا ہے ہرا پرچم محمد کا
کوئی ہے جو بدل دے ان مسلمانوں کے ایماں کو

ظفر محمود ظفر(پسر مرحوم حفیظ بنارسی) نے ریاض کے ادبی و شعری منظرنامے کا ذکر کرتے ہوئے اپنے کچھ منتخب اشعار سنائے۔

نشست کا انعقاد مرحوم شاعرحفیظ بنارسی کے گھرمیں ان کے شاعربیٹوں نے کیا، اور نظامت کے فرائض شاعر زم زم رامنگری نے انجام دیا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details