گزشتہ روز تمام نیوز اداروں میں جوش تھا، ایک بحث جاری تھی کہ نریندر مودی بہت جلد پریس کانفرنس کرنے والے ہیں، چونکہ 5 برس کے دوران وزیراعظم نے کبھی کوئی پریس کانفرنس نہیں کی تھی ایسے میں لوگوں کا جوش تو جائز تھا۔
صبح بھی بے رنگ نکلی، وزیراعظم نے بنارس سے پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے اور میڈیا کے چند سوالوں کا جواب دے کر آگے نکل پڑے۔
انٹرویو میں وزیراعظم مودی نے کہا کہ وہ اپنی ریلیوں میں اگر 40 منٹ تقریر کرتے ہیں تو کسان، روزگار جیسے بڑے مسائل پر زیادہ بولتے ہیں اور قومی سلامتی، قوم پرستی وغیرہ پر محض تین یا چار منٹ ہی بولتے ہیں۔
اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو انتخابات میں قوم پرستی کا ہی مسئلہ کیوں چھایا رہتاہے؟ بالاكوٹ اور پلوامہ جیسے حملے پر ووٹ کیوں مانگے جا رہےہیں، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی پر کیوں نہیں؟
انٹرویو میں پتہ نہیں چلا کہ ایک کروڑ سالانہ ملازمتوں دینے کے وعدے پر کتنا عمل ہوا۔ مودی نے یہ ضرور بتایا کہ آئندہ ان کا کیا منصوبہ ہے اور وہ کیا کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ 5 سال میں یہ تک پتہ نہیں کر پائے کہ کتنے لوگ بے روزگار ہوئے؟ سوال یہ ہے کہ پانچ برس میں جب مرض کا پتہ نہیں کر پائے تو دوا کیا، کب اور کیسے دیں گے؟
سنہ 2022 تک کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے سوال پر نریندر مودی نے بہت سارے منصوبوں کے نام گنوائے۔اس کے برعکس تمام رپورٹز یہ بتاتے ہیں کہ کسانوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
انڈین ایكسپریس کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2018 زراعت سے ہونے والی آمدنی 14 سال میں سب سے کم ریکارڈ کی گئی، آمدنی کم ہوئی ہے تو کھیتی سے منسلک کاموں کی اجرت بھی گھٹ گئی۔
اس انٹرویو میں مودی نے نوٹ بندی کو عظیم کامیابی قرار دیا اور کہا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کالے دھن کو جمع کرنے میں مدد ملی ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔
نوٹ بندی کے 21 ماہ بعد آر بی آئی نے اس پر حتمی اعداد و شمار جاری کیا۔ 29 اگست سنہ 2018 کو جاری اس رپورٹ کے مطابق نوٹ بندی کے تحت کل 15.44 لاکھ کروڑ روپے کے پرانے نوٹ میں سے 15.31 لاکھ کروڑ کے پرانے نوٹ بینکوں میں جمع کرائے گئے۔ یعنی پرانے نوٹوں میں سے تقریباً 99 فیصد پیسے واپس سسٹم میں آ گیا تو پھر کالا دھن کہاں ہے؟
مجموعی طور پر وزیراعظم نریندر مودی ووٹنگ سے عین قبل ایک معروف ہندی نیوز چینل پر آئے تو لوگوں کو یہ امید تھی کہ شاید اس مرتبہ مودی جی کچھ نئی بات بولیں گے۔ لیکن جب انہوں نے زبان کھولی تو لگا کہ انٹرویو کا انداز تو مختلف ہے لیکن مواد پرانا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ انٹرویو میں کچھ بھی پتہ نہیں چلا، کچھ ٹھوس معلومات بھی ملی ہیں، اس سے پہلے والے انٹرویو میں معلوم ہوا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی کو پپیتا اور آم پسند ہے۔
اس کے نتیجہ میں یہ جاننے کی کوشش ہوئی کہ آم کس طرح کھاتے ہیں اور اب پتہ چلا ہے کہ مودی جی پوہا بنا لیتے ہیں اور کھچڑی بھی اچھا پکا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی پتہ چلا کہ کوئی ہے جو مودی کا رازدار ہے اور اس مودی جی اپنا اچھا، برا سب کچھ اسے بتاتے ہیں، حالاںکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ رازدار کون ہے؟ آپ کو اس بات کی آزادی ہے کہ اس سلسلے میں اندازہ لگائیں۔
اکشے کمار نے جب اپنے انٹرویو میں مودی سے پوچھا تھا کہ کبھی ریٹائرمنٹ کے بعد کا سوچا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ان چیزوں کے بارے میں نہیں سوچتے۔
مودی نے یہ بھی بتایا کہ گجرات کے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے جو آمدنی ہوئی تھی اس کا بڑا حصہ وہیں سیکرٹریٹ کے ملازمین کے خاندان کی مدد کے لیے دے دیا اور جو زمین ملی تھی اسے بھی پارٹی کو عطیہ کر دیا۔
اگلے دن بنارس کے دشاشومیدھ گھاٹ پر کھڑے ہو کر مودی نے کہا کہ کاشی کے پھكڑپن نے انہیں بھی فقیر بنا دیا۔ لیکن جب پرچہ نامزدگی کے وقت جو حلف نامے جمع کیا اس سے پتہ چلا ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں ان کے اساسہ میں 52 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
مودی کے پاس 2.5 کروڑ کے جائیداد ہے، جبکہ تقریباً 1.5 کروڑ کی نقدی، بانڈ، بچت، سرمایہ کاری وغیرہ ہیں جبکہ تو ایک کروڑ دس لاکھ کی جائیداد ہے۔