اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا - اردو شاعری کے نابغہ روزگار

اردو شاعری میں مرزاغالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

By

Published : Feb 15, 2020, 9:25 AM IST

Updated : Mar 1, 2020, 9:39 AM IST

اردو شاعری کے نابغہ روزگار مرزا اسد اللہ خاں غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ والد کا نام عبد اللہ بیگ تھا۔ آپ کا خاندانی شجرہ اصل و نسب ترک اور توران سے تھا۔ آپ ایک سلجوقی ترک تھے، آپ کے دادا بھارت آکر آباد ہوئے تھے۔

حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ برس کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔

نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔

سنہ 1810 میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراؤ بیگم سے ہو گئی، شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے۔ اس دوران انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔

غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہوگئی۔ چنانچہ انقلاب 1857ء کے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا۔ انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی۔ مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا۔

اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔

غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیُّل کی بلندی اور شوخیٔ فکر کا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کو شِدّت سے محسوس کرتے ہیں۔

نہ کچھ تھا تو خدا تھا، نہ کچھ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اور اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھاتے ہیں۔

انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں۔ اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں۔ اور نظام کائنات میں اس کو نئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔

غالب کی شاعری اس اعتبار سے بہت بلند ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کی شاعر ی کے انہیں عناصر نے اُن کو عظمت سے ہمکنار کیا ہے۔ لیکن جس طرح ان کی شاعری میں ان سب کا اظہار و ابلاغ ہوا ہے۔ وہ بھی اس کو عظیم بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔

غالب کی شاعری کا اثر حواس پر شدت سے ہوتا ہے وہ ان میں غیر شعوری طور پر ایک ارتعاش کی سی کیفیت پیدا کرتی ہے اور اسی ارتعاش کی وجہ سے اس کے پڑھنے اور سننے والے کے ذہن پر اس قسم کی تصویریں ابھرتی ہیں۔ ان کے موضوع میں جو وسعتیں اور گہرائیاں ہیں اس کا عکس ان کے اظہار و ابلاغ میں بھی نظر آتا ہے۔ ان گنت عناصر کے امتزاج سے اس کی تشکیل ہوتی ہے۔

غالب کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت ان کا منطقی اور استدلالی انداز بیان ہے۔ بقول پروفیسر اسلوب احمد انصاری: 'یعنی غالب صرف جذبات کا تجزیہ ہی نہیں کرتے بلکہ ان میں باہمی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں'۔

غالب کی نظر میں محبت کوئی ایسا جذبہ نہیں جو فطری طریقے سے دلکش محرکات میں ڈھل جائے۔ بلکہ یہ ایک گرم تیز رو ہے جو پوری شخصیت کے اندر انقلاب پیدا کر دیتی ہے۔ غالب صرف اشاروں سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے نرم و لطیف، احساسات و کیفیات کا تجزیہ کرتے اور ان پر استدلال کرتے ہیں۔

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب

جو لگائے نہ لگے جو بجھائے نہ بجھے۔

غالب نے اپنی شاعری میں رمز و ایمائیت سے بھی حسن پیدا کیا ہے۔ انہوں نے زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں اور گہرے مطالب کو رمز و ایما کے پیرائے میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔

انہوں نے اردو غزل کی روایت میں تصوف نے جو رمز و ایمائیت پیدا کی اسے اپنے لیے شمع راہ بنایا۔ یوں انہوں نے سیاسی اور تہذیبی، معاشرتی موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور انفرادی رنگ کے پردے میں اجتماعی تجربات کی ترجمانی کی۔ اس طرح سے رمزیت اور ایمائیت کا رنگ ان کی شاعری پر غالب نظرآتا ہے۔

بچپن میں باپ کی موت، چچا کی پرورش، اُن کی شفقت سے محرومی، تیرہ سال کی ناپختہ عمر میں شادی کا بندھن، بیوی کے مزاج کا شدید اختلاف، قرضوں کا بوجھ۔ ان سب نے غالب کو زمانے کی قدرشناسی کا شاکی بنا دیا۔ چنانچہ ان محرومیوں کی تصویر بھی ان کی شاعری میں نمایاں خصوصیت کی حامل ہے۔

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

ان تمام تر محرمیوں کے باوجود غالب کا اندازِ فکر قنوطی نہیں۔ چنانچہ قدم قدم پر ان کے ہاں یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی خوشی کے ساتھ گزرے یا غموں کی گود میں بہرحال قابلِ قدر ہے۔

مزید پڑھیں:'راجستھان میں سب سے پہلے میں ڈٹینشن سینٹر میں جاؤں گا'


کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا۔

غالبؔ ایک خوش خلق ،خوش مزاج ،فقیر دوست اور وسیع المشرب انسان تھے جنکی وفات نے ہر ایک شعبہ کو پرنم اور ہر ایک قلب کو غم اندوہ میں ڈوبو دیا، اپنے حیات میں ہی انہوں نے جتنی ناموری و شہرت پائی اس کا ہمسری کوئی دوسرا نہیں کر سکا اور آج بھی اُن کی عظمت کا ستارہ اپنے عروج پر ہے

ہوئی مدت کے غالب مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر ایک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

Last Updated : Mar 1, 2020, 9:39 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details