امیر شریعت حضرت مولانا محمد ولی رحمانی نے کہا کہ مشہور اور قابل ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ کی کاروائیوں پر مثالوں کے ساتھ تبصرہ کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے ازخود مقدمہ چلایا، یہ بات 2009 کی ہے۔
حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ آن لائن شنوائی کررہا ہے اور غیرمعمولی اہمیت والے مقدمات کی سماعت ہورہی ہے، سپریم کورٹ نے گیارہ سال ٹھنڈے بستہ میں پڑے اس معاملہ کو بھی نمبر پر لے لیا اور جن مثالوں کے ساتھ انہوں نے سپریم کورٹ پر الزام لگائے تھے سماعت کے دوران پرشانت بھوشن اور ڈاکٹر راجیو دھون کے اصرار کے باوجود کسی ایک مثال پر بھی بات نہیں ہوئی اور سماعت مکمل ہوگئی۔ ظاہر ہے ملزم کی پوری بات نہ سننا سپریم کورٹ کے وقار و اعتبار کے شایان شان نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالتوں کی بے راہ روی پر کتابیں آچکی ہیں اور عدالتوں کے غیر جانبدارانہ رویہ پر انگلیاں اٹھتی رہی ہیں اور پڑھے لکھے لوگوں میں عدالتوں کے جانبدارانہ رویہ پر خوب تبصرے ہوئے ہیں، خود بابری مسجد کیس میں جو فیصلہ سپریم کورٹ کا آیا ہے وہ عدالتی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا، عدالت نے مسلم فریق کی تمام بنیادی باتوں کو تسلیم کیا اور اس کو اپنے فیصلہ میں لکھا بھی لیکن اس کے بعد ججوں کی ذمہ داری تھی کہ ان حقائق کی بنیاد پر فیصلہ سناتے لیکن اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ججوں نے فیصلہ کردیا اور بابری مسجد کی زمین ہندوفریق کودے دی۔