مغربی افریقہ کے ملک مالی کے صدر ابراہیم بوبکر کیٹا نے بدھ کے روز علی الصبح اعلان کیا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دارالحکومت بامکو میں فوجی بغاوت کے بعد خون خرابہ نہ ہو، جو کہ پورے ملک میں پھیل سکتا ہے۔
فوجی بغاوت کے بعد مالی کے صدر ابراہیم بوبکر کیٹا مستعفیٰ قومی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک مختصر بیان میں ابراہیم بوبکر کیٹا نے کہا ہے کہ 'آج فوج کے کچھ یونٹوں نے فیصلہ کیا ہے کہ میرے خلاف مداخلت کریں جس کے بعد میرے سامنے استعفیٰ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کیوںکہ میں نہیں چاہتا کہ خون بہایا جائے'۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گٹیرس نے منگل کے روز (مقامی وقت کے) مالی صدر ابراہیم بوبکر کیٹا اور وزیر اعظم بوبوس سیس کو بغاوت کرنے والے رہنماؤں کی گرفتار کے بعد فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق مالی فوج کی اکائیوں نے منگل کے روز اس بغاوت کا آغاز کیا تھا۔ باغیوں نے متعدد وزراء اور اعلی عہدے داروں کو گرفتار کیا جن کے بارے میں یہ خیال ہے کہ وہ فوجیوں کی مالی پریشانیوں کا سبب بن رہے ہیں۔
بتایا جارہا ہے کہ اس فوجی بغاوت کو منظم کرنے کے لئے چار فوجی اہلکار ذمہ دار ہیں۔ حکومت نے مائیگا کے ذریعے دستخط شدہ ایک بیان جاری کیا ہے جس میں وہ بغاوت کرنے والوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق گزشتہ دن ہی سے بار بار فائرنگ کی آوازیں آتی رہیں اور باغی فوجیوں نے صدر کی رہائش گاہ کی سمت میں گولیاں چلائیں۔ مالی ریاست کا نشریاتی ادارہ اس واقعے کے بعد سے ہی آف لائن ہو گیا ہے۔
بماکو میں ہجوم سڑکوں پر آگیا، جس نے دارالحکومت کو گھیر لیا۔ مالی کے وزیر انصاف کی ملکیت والی ایک عمارت کو نذر آتش کیا گیا اور لوٹ لیا گیا۔
مالی کے دارالحکومت میں بدامنی کے بعد منگل کی صبح شہر سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک فوجی کیمپ میں بغاوت کی کوشش کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
اطلاع کے مطابق متنازع پارلیمانی انتخابات کے نتیجے میں ملک کی اعلی ترین آئینی عدالت نے نتائج کو کالعدم قرار دیا تھا، اس کے باوجود مئی سے صدر کیٹا کو عوامی عدم اطمینان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔