دو مرحلوں کے انتخابات ہو بھی چکے ہیں۔ پہلے مرحلے میں 91 سیٹوں کے لئے تو دوسرے مرحلے میں 95 سیٹوں کے لیے ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔
تو ایسے میں اس انتخابی موسم میں ہم آپ کو لے چلتے ہیں بھارت میں انتخابات کے تاریخ کے سفر پر ۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت آبادی کے اعتبار سے بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔
انتخابات کسی بھی جمہوری نظام کی روح ہیں۔ اور بھارت میں تو یہ سب سے بڑا تہوار بھی ہوتا ہے۔
بھارتی شہری تین سطح پر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں، لوک سبھا یعنی عام انتخابات میں، ودھان سبھا یعنی اسمبلی انتخابات میں اور بلدیاتی و پنچایتی انتخابات میں۔
بھارتی پارلیمینٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔
لوک سبھا میں کل 543 نشستیں ہیں اس کے علاوہ دو نشستیں انگلو بھارتیوں کے لیے مخصوص ہیں جنھیں صدر جمہوریہ براہ راست منتخب کرتے ہیں۔
راجیہ سبھا میں کل 245 نشستیں ہیں۔ ان کے انتخاب میں شہری براہ راست حصہ نہیں لیتے بلکہ انھیں متعلقہ ریاست کی اسمبلی کے ارکین منتخب کرتے ہیں۔
پارلیمنٹ کو ملک کی سب سے بڑی پنچایت بھی کہا جاتا ہے۔
بھارتی قانون کی دفعہ 324 کے تحت 1950 میں صاف شفاف اور پرامن انتخابات کے انعقاد کے لیے قومی انتخابی کمیشن کا قیام کیا گیا۔ سو کمار سین ملک کے پہلے چیف الیکشن کمشنر مقرر کیےگئے۔
آزاد بھارت کے پہلے انتخابات کی مدت 1952 سے 1957 تک تھی اور اس میں کل 489 نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے تھے۔ اس وقت بھارت میں کل 17 کروڑ 30 لاکھ ووٹرز تھے۔
اس وقت کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی انڈین نیشنل کانگریس کو سب سے زیادہ 364 حلقوں میں کامیابی ملی تھی جبکہ بائیں بازو کی جماعت سی پی آئی کو 16 اور سوشلسٹ پارٹی 12 سیٹوں پر کامیابی حاصل کرکے نمایاں رہی تھیں۔
ان انتخابات میں کانگریس کو مجموعی ووٹوں کا تقریباً 45 فیصد ووٹ ملا تھا۔ بی جے پی کی پرانی شکل جن سنگھ 3 سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
دوسرا عام انتخابات 1957 میں ہوا تھا، اس بار کل سیٹوں کی تعداد 494 تھی۔ کانگریس نے 371 سیٹوں پر کامیابی کے پرچم لہرائے تو دوسری جانب سی پی آئی 27 سیٹوں پر جیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس بار کانگریس کو مجموعی طور پر تقریباً 48 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔
پہلے دونوں انتخابات میں کانگریس کے بعد سب سے زیادہ ووٹ آزاد امیداروں کو ملے تھے۔
دوسرے عام انتخابات کے بعد حزب اختلاف کی کسی جماعت کو اتنی سیٹیں حاصل نہیں ہوئیں کہ کسی کو اپوزیشن لیڈر تسلیم کیا جا سکے۔
بھارتی جمہوریت کے پہلے مرحلے کے انتخابات میں حکومت کی تبدیلی کی امیدیں 20 فیصد کے اردگرد ہوا کرتی تھیں۔ اس دور میں 'اینٹی انکمبینسی' یعنی حکومت مخالف رجحان برائے نام ہوتا تھا اور نتیجتاً برسراقتدار جماعت ہی دوبارہ اقتدار میں واپس آجاتی تھی۔
یہ وہ دور تھا جب سنہ 1962 میں چین سے جنگ، سنہ 1965 میں پاکستان سے جنگ کے بعد 1971 میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آيا۔
سنہ 1969 میں پہلی بار بینکوں کو نیشنلائزڈ کیا گیا تاہم 1975 میں ایمرجنسی کا نفاذ اس دور کا ایک بد ترین باب ہے۔
تیسرا عام انتخابات 1962 میں ہوا تھا اور سیٹوں کی تعداد وہی تھی۔ اس بار کانگریس کو پہلے کے مقابلے 10 سیٹیں کم ملیں اور اس کا ووٹ شیئر بھی کم ہوا۔