جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایم آر شاہ پر مشتمل ڈویژن بینچ نے تمام متعلقہ فریقین کی تفصیلی دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔
عدالت عظمی نے واضح کیا کہ 12 جون کو اس معاملے میں فیصلہ سنائے جانے تک وزارت داخلہ کے 29 مارچ کے حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر آجروں کے خلاف کوئی تعزیراتی کارروائی نہیں ہوگی۔
عدالت عظمیٰ نے تمام فریقوں کو تین دنوں کے اندر تحریری طور پر اپنے دلائل پیش کرنے کا بھی حکم دیا۔
قبل ازیں سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے بینچ کے سامنے دلیل دی کہ جب لاک ڈاؤن شروع ہوا تو ملازمین کو اپنے ملازمت کی جگہ سے اپنے آبائی شہروں کی طرف نقل مکانی کرنے سے روکنے کے ارادے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا لیکن یہ معاملہ ملازمین اور کمپنی کے بیچ کا ہے اور حکومت اس میں مداخلت نہیں کرے گی۔
کے کے وینو گوپال نے کہا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے تحت، قومی ایگزکٹیو کمیٹی کوئی بھی نوٹیفکیشن جاری کرسکتی ہے کیونکہ متعلقہ قانون میں آفات سے نمٹنے کے لیے کسی بھی طرح کی ہدایت جاری کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔
تاہم عدالت عظمی نے اس بارے میں یہ سوالات اٹھائے کہ جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے صنعتکاروں کو اپنا کاروبار بند رکھنا پڑا تو انہیں لاک ڈاؤن کی مدت کے لیے پوری تنخواہ دینے کی ہدایت جاری کرنا کس طرح جائز قرار دیا گيا؟
جسٹس کول نے کہا کہ 'انہیں وزارت داخلہ کے 29 مارچ کے حکم پر اعتراض ہے۔ اس مدت کے لیے کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اس پر تبادلہ خیال کیا جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے صنعتی تنازعات ایکٹ کی بجائے صرف ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کا سہارا لیا اور آجروں کو پوری تنخواہ ادا کرنے پر زور دیا۔
جسٹس کول نے مزید کہا کہ 'ہر صنعت کے ساتھ مناسب طور پر بات چیت ہوسکتی ہے کیونکہ پوری تنخواہ دینا ممکن نہیں ہے۔ اس معاملے میں حکومت ثالثی کا کردار ادا کرسکتی ہے۔
بعد میں اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ اس معاملے کی سماعت دو ماہ کے لیے ملتوی کردی جائے اور تب تک کوئی سخت تعزيراتی کارروائی نہ کرنے کے عبوری حکم برقرار رکھا جائے لیکن درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ مسئلہ صرف مرکزی وزارت داخلہ کا نہيں بلکہ وزارت محنت کی ایڈوائزری بھی ایک مسئلہ ہے جسے وزارت داخلہ کے حکم کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔
ایک دیگر درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ کے وی وشواناتھن نے دلیل دی کہ اگر حکومت پوری تنخواہ ادا کرنے پر مجبور کرتی ہے تو کمپنیاں ادائیگی تو کردیں گی لیکن وہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں گی۔ اس سے صنعتوں پر ہمیشہ کے لیے تالے لگ جائیں گے اور آئندہ بھی مزدور ملازمت سے محروم ہوجائیں گے۔
ملازمین کی جانب سے پیش ہونے والی سینیئر ایڈوکیٹ اندرا جے سنگھ نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے سیکشن 2 (ڈی) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'اس ایکٹ کے تحت حکومت کی جانب سے 'لاک ڈاؤن' نام سے ایک نئی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے اور لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے والا اہلکار اس سے متاثرہ افراد کے مفادات کے تحفظ کا ذمہ دار ہے۔
اندرا جے سنگھ نے کہا کہ 'ہم غریبوں میں غریب ترین شخص کی بات کر رہے ہیں۔ ہم ان لوگوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن کے سر پر چھت نہیں ہے اور نہ کھانے کے لیے اناج ہے۔
کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ ٹھیکیداروں کو ادائیگی نہیں کرنا چاہتی ہیں لیکن ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ انہوں نے اپنے عارضی مزدوروں کو کتنی ادائیگی کی ہے؟
کچھ دیگر وکلا کی دلائل سننے کے بعد عدالت نے اپنا فیصلہ 12 جون تک محفوظ رکھ لیا اور تب تک کے لیے اس سلسلے میں عبوری حکم کو بڑھا دیا۔