اس نوجوان شخص کا نام معظم بھٹ ہے جس کی عمر25 برس ہے۔
معظم پیشے سے ایک ریپر ہیں، وہ شعور ی ریپ یعنی ایسا ریپ جس میں شراب، پارٹی یا ناچ گانا نہیں بلکہ معاشرے کے حالات یا زندگی کے فلسفے کی بات کہی جاتی ہے۔
معظم کہتے ہیں کہ یہاں (کشمیر میں) جو کچھ ہو رہا ہے، میرے ریپ اسے پر منحصر ہوتے ہیں اور میں ایک عام انسان کے نظریے سے لکھ کر تاریخ میں اپنا تعاون دینا چاہتا ہوں کہ اسے کشمیر میں کیا کیا دیکھنا پڑتا ہے۔
لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر ریاست جموں و کشمیر میں بڑی تعداد میں پولیس تعینات ہے لیکن پھر بھی لوگوں کی دلچسپی انتخابات میں نظر نہیں آتی۔
رواں برس 14 فروری کو پلوامہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد کشمیر میں فوجی کارروائی میں اضافہ ہوا ہے، اور آرٹیکل 370 اور 35 ( اے ) کو ہٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں، لیکن معظم اس سختی کو صحیح نہیں مانتے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی سیاست سب سے زیادہ کامل علاج ہے اور حکومت ان سب کو ملا کر اگر ایک حل نکال سکتی ہے تو وہ ایک بہت اچھا قدم ہو گا۔
ذیل میں لکھے گئے معظم کے ریپ میں کشمیری باشندگان کا درد جھلکتا ہے۔
سنجیدہ یہ حالت ہے، اپنی ریاست کی
پولیس کی بے رحمی بھی، گندی سیاست بھی
جگہ یہ عبادت کی
تھی دلوں میں شفقت
یہ وادی روحانی تھی
اب تو بس نفرت اور موسم طوفانی ہے
خون کی روانی اور جایا جوانی ہے
ہم سب جوانوں کی کتنی قربانی ہے
درکار یہ سرکار بھی بن کر بیگانی ہے
بیٹھی ہوئی جیسے ایک دم انجانی ہے
ان سب حالات سے ناکام یہ حکمراں ہیں
جھوٹے یہ انسان موت پہ بھی خاموش
تو کیسے شیطان ہیں یہ سوچو اور دیکھو
ان قاتلوں کو روکو
جو خدمت کے نام پہ یہ کرتے مذاق ہیں
کیا قسمت میں اپنی لکھے یہ عذاب ہیں
پر خود بھی تو ہم دھوکے بازی میں شامل ہیں
کیا سچ میں ہم لوگ آزادی کے قابل ہیں