سنہ 1999 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہوئی کرگل جنگ کے آج 21 برس مکمل ہو گئے ہیں، 25 جولائی سنہ 1999 کو آپریشن وجئے میں کرگل کی جنگ میں ہلاک ہونے والے بھارتی فوج کے ایک جانباز کوشل یادو کی قربانی ہمیشہ یاد کی جائے گی۔
کرگل وجے دیوس: کوشل یادو کی قربانی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا! کوشل یادو کی پیدائش چار اکتوبر سنہ 1969 کو بھلائی میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام رام ناتھ یادو تھا اور ان کی والدہ دھنیشوری دیوی ہیں، کوشل یادو کو گھر میں پیار سے للا بلایا جاتا تھا، ان کی ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں ہوئی، کوشل یادو کو تعلیم و تعلم میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی، بچپن سے ہی وہ فوجی بننے کا سپنا سنجوئے تھے، تو وہیں دوران طالب علمی انہیں فٹبال، باکسنگ اور ایتھلیٹکس کا بہت شوق تھا اور وہ اس کے اچھے کھلاڑی بھی تھے۔
کو شل یادو کی قربانی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا! جب کوشل یادو بھلائی کے کلیان کالج میں بی ایس سی کے پہلے سال کی تعلیم حاصل کر رہے تھے تب ہی بھارتی فوج میں ان کا انتخاب ہو گیا تھا، بھارتی فوج میں اپنے منتخب ہونے پر وہ انتہائی خوش تھے، بچپن سے ہی فوج میں شامل ہونے کی ان کی خواہش کی وجہ سے اہل خانہ نے کبھی انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔
کو شل یادو کی قربانی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا! وہ 1989 کے بعد آرمی کے نائن پیرا یونٹ بی گروپ اسپیشل سیکیورٹی آرمی میں اپنی پوری مدت ملازمت کے لیے ادھم پور میں تعینات رہے اور انہیں چیف آف آرمی اسٹاف نے 26 جنوری 1998 کو کشمیر کی خصوصی کارروائیوں میں ان کی شاندار خدمات کے لیے اعزاز سے بھی نوازا تھا، سنہ 1999 میں کرگل کی جنگ میں کوشل یادو جنگ کی قیادت کر رہے تھے، انہیں اور ان کے ساتھیوں کو پاکستان کے قبضے سے جولو ٹاپ کو آزاد کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، انہوں نے ناموافق حالات کے باوجود، پورے جوش و جذبے اور عزم کے ساتھ اس ناقابل رسائی والی پہاڑی پر چڑھنا جاری رکھا۔
کو شل یادو کی قربانی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا! 25 جولائی 1999 کو دشمن کی فوج کی طرف سے مسلسل فائرنگ کے باوجود پانچ پاکستانی فوجیوں کو ہلاک کر دیا، اسی اثنا میں کوشل یادو کو بھی گولی لگ گئی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے لیکن پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور پاکستان کے قبضے سے جولو ٹاپ کو آزاد کرا کر وہاں بھارتی پرچم لہرایا، اسی کے کچھ دیر بعد کوشل یادو کو کرگل کے علاقے میں بھارتی سرحد کی حفاظت کرتے ہوئے ہلاک کر دیا گیا۔
کو شل یادو کی قربانی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا! ملک کے لیے اپنے جان کی قربانی دینے والے کوشل یادو کو ان کی بے پناہ بہادری اور ہمت کے لیے بھارتی حکومت نے بعد ازاں ویر چکر سے نوازا۔
کوشل یادو کی یاد میں بھلائی کے ہڈکو میں بنائے گئے میموریل پر 25 جولائی کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، یہاں عوام الناس کے علاوہ عوامی نمائندے ضلع انتظامیہ منعقدہ خراج تحسین کے پروگرام میں شامل ہوتے ہیں اور انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
کو شل یادو کی قربانی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا! ویر جوان کوشل یادو کے بھائی رام بچن یادو بتاتے ہیں کہ کوشل یادو کو بچپن سے ہی ورزش وغیرہی میں دلچسپی تھی، وہ فوجی سیریل دیکھ کر اس سے متاثر ہوا اور اس نے فوجی بننے کی چاہ اپنے دل میں بسا لی۔
کو شل یادو کی قربانی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا! وہیں 3 جون سنہ 1989 کو پیرا شوٹ رجمنٹ میں داخل ہوا کوشل یادو ابتدا سے ہی ادھم پور میں تعینات تھا، حکومت نے اعلان کیا کہ 26 جولائی کو آپریشن وجئے دیوس منائیں گے، لیکن جو پوسٹ اب بھی پاکستان کے قبضے میں ہے اسے آزاد کرائیں گے، اور اس کے لیے ان لوگوں (کوشل اور اس کے ساتھیوں) کو 25 جولائی کی رات کو اس پوسٹ کو خالی کرنے کی ذمہ داری سوپنی گئی، اسی دوران گولی باری میں کوکشل یادو کی ہلاکت ہوئی، جس کے بعد بھارتی حکومت نے کوشل یادو کو ویر چکر اعزاز سے نوازا۔
کو شل یادو کی قربانی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا! کوشل یادو کے بھتیجے ابھیشیک یادو بتاتے ہیں جب ان کے چچا کوشل یادو شہید ہوئے تھے تب وہ چھوٹے تھے، لیکن آج بھی ہم لوگوں کو کوشل یادو کے اہل خانہ کے طور پر جانا جاتا ہے، آپریشن وجئے میں کوشل یادو فوج کی قیادت کر رہے تھے۔
کوشل یادو کے بچپن کے ساتھی اجول دت بتاتے ہیں کہ کوشل یادو کو ہم بچپن میں للا کے نام سے بلایا کرتے تھے، کوشل یادو بچپن سے ہی ایک بہادر نوجوان تھے، اس کی ورزش کا طریقہ کار جداگانہ تھا، کوشل یادو ہمیشہ کہتے تھے کہ اسے خصوصی تربیت میں رکھا جاتا ہے۔
کو شل یادو کی قربانی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا! وہ اپنے اور کوشل یادو کی قربت کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کی قربت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ جب بھی بھلائی آیا کرتے تھے، ان کے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا، وہ دوستوں سے فوجیوں میں ہونے والی سرگرمیوں کا ذکر کیا کرتا تھا، وہ بتایا کرتے تھے کہ عسکریت پسندوں کو مارنے کے لیے ایک خاص قسم کے بھیس میں وہ جایا کرتے تھے، اور جانکاری اکٹھا کر کے راتوں رات مار گرانے کا ذمہ ہوا کرتا تھا، اجول دت کہتے ہیں کہ کو شل یادو نے ملک کے لیے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں جنہیں وہ بیاں نہیں کر سکتے ہیں۔'
آج بھلے ہی کوشل یادو اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن وہ آج بھی ان لوگوں کے درمیان زندہ و تابندہ ہیں جو ملک کے تئیں سچی محبت رکھتے ہیں، آج ایسے جانباز اور بہادر بیٹوں کی بہادری کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ مستقبل کے بچے ان سے ہمیشہ سبق لے سکیں۔