غیرقانونی تعمیرات اور ندی کے اطراف میں ہونے والے ناجائز قبضوں پر میونسپل افسران قدغن لگانے میں پوری ناکام ثابت ہورہے ہیں۔
'سی آر زیڈ' قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ندی کے اطراف میں غیر قانونی طور سے ڈائنگ اور عمارتوں کے تعمیراتی کام کیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود بھیونڈی میونسپل کارپوریشن اور ضلع پریشد انتظامیہ چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
ہر برس بھیونڈی شہر اور اطراف کے علاقوں میں بارش کے ایام میں ندی کے گہرے نہ ہونے کی وجہ سے سیلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے، نشیبی علاقوں میں رہائش پذیر خاندانوں کی املاک تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔
حالانکہ مقامی لوگوں نے شہر سے گزرنے والی اس ندی کو گہرا اور وسیع کرنے کے علاوہ ندی کے کناروں پر شجرکاری کرکے اسے خوبصورت بنانے کا مطالبہ مسلسل ریاستی حکومت اور مقامی انتظامیہ سے کرتے آئے ہیں۔
مقامی شہری شبیر شیخ کے مطابق، ' خوش قسمتی سے شہر کے اطراف سے كامواری ندی گزر رہی ہے، مگر حکومت ندی کو شہریوں کے استعمال میں لانے میں پوری طرح ناکام ہے'۔
خیال رہے کہ مانسون کے بعد دسمبر اور جنوری میں کامواری ندی کے پانی کی سطح ایک دم نیچے چلی جاتی ہے اور یہ سوكھ كر نالے میں تبدیل ہو جاتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ندی کے اندر کی مٹی اور ریت نکال کر اسے گہرا اور چوڑا کر دیا جائے تو اس میں سال بھر کے لیے پانی کا ذخیرہ جمع کیا جاسکتا ہے۔ اور علاقے کی عوام خاص طور پر کسانوں کو ضرورت کے مطابق پانی کی فراہمی میں پریشانی نہیں ہوگی۔
مقامی شہری اظہر کھوجے نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس برس مانسون سے قبل اس ندی کو وسیع کیا جائے تاکہ ہر برس نالے کی شکل اختیار کرچکی ندی کے سبب کروڑوں کی املاک کو تباہی اور بربادی سے بچایا جاسکے۔