انسان کی تاریخ میں زراعت کا پیشہ دنیا کا سب سے قدیم ترین پیشہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ زراعت کے طریقہ کار میں جدت آتی رہی ہے۔ ذراعتی شعبے میں فصل اْگانے کے لیے جس طرح کے طریقہ کار زیرِ استعمال ہیں اْنہیں پْرانے طریقہ کار کے مْقابلے میں بہتر، معیاری اور جدیدیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کہا جا سکتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی اور معیاری زراعتی پیداوار کی بڑھتی ہوئی مانگ جیسی درپیش مْشکلات کے باوجو د زراعت کا شعبہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت مضبوط اور مستحکم طریقے سے آگے بڑھتا رہا ہے۔مثال کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ بھارت اپنی روز مرہ کی ضروریات پورا کرنے کے لئے اناج کے برآمد پر منحصر تھا لیکن آج ہماری پیداواری صلاحیت ایک ایسے مقام پرپہنچ چکی ہے جہاں ہمارا ملک نہ صرف اپنی ضروریات پورا کرنے کا اہل ہے بلکہ اناج کے حوالے سے دنیا کی ضروریات پورا کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
شکر ہے کہ دنیامیں آئے سبز انقلاب اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہوئی ترقی کی بدولت آج زراعت کے شعبے میں آج سے قبل ہماری پیداواری صلاحیت 50ملین ٹن پیداوارسے بڑھ کر 300ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے۔سبز انقلاب کے دور ان زراعت کے شعبے میں استعمال ہونے والے طریقہ کار میں چاہے بوائی کا معاملہ ہو یا فصل کی دیکھ بھال ِہر معاملے میں ٹیکنالوجی کا عمل و دخل بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی اور جانکاری کی آسان و جلد ترسیل کی بدولت زراعت کے شعبے میں جس قسم کی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اْس سے آج نہ صرف ہمیں بہتر اور معیاری فصل حاصل ہو رہا ہے بلکہ ہماری پیداوار میں بھی اضافہ درج ہوا ہے۔اس حقیقت کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ زراعت کے شعبے میں مصنوعی طریقہ کار کا استعمال کوئی حیران کْن بات نہیں ہے۔
انسانی ذہانت پر مبنی یہ مصنوعی طریقہ کارایک ایسا عمل ہے جو کارگر ہونے کے ساتھ ساتھ نتیجہ خیز بھی ہے۔اس کی بدولت زراعتی عمل خودکار ہوجاتا ہے اور اس میں انسانی مداخلت کم ہوکر رہ جاتی ہے۔اس طرح مصنوعی ذہانت یا اے آئی پر مبنی یہ طریقہ کار زراعتی سرگرمیوں کے ضمن میں زیادہ موزون بن گیا ہے جو زمینداری سے وابستہ مختلف مراحل کے دوران صحیح فیصلے لینے کا خود اہل ہے۔جبکہ اس حوالے سے کسانوں کی طرف سے لئے جانے والے فیصلوں میں اکثر غلطیاں سرزد ہونے اور بھٹک جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔مستقبل میں فوڈ سیکورٹی اور کسانوں کی آمدنی کو یقینی بنانے کےلیے زراعت کے شعبہ میں خامیوں اور غلطیوں کو برداشت نہیں کیاجاسکتا ہے۔
عالمی سطح پر آج بھی دنیا بھر میں اے آئی کی اہمیت کو سمجھا جا رہا ہے۔ ایک مارکیٹ سروے کے مطابق سال 2025 تک عالمی بازار میں زراعتی شعبے میں گلوبل اے آئی کی منڈی کی مالیت 1550 امریکی ڈالر تک پہنچ جانے کا اندازہ ہے۔
زراعتی شعبے میں اے آئی کا عمل و دخل تقریباًہر مرحلے پر ضروری ہے مگر فصل کا انتخاب ، اس کی دیکھ بھال اور پیشگی اندازوں کا تعین کرنے میں اس طریقہ کار کا استعمال نا گزیر ہے۔بھارت میں چونکہ زراعت اور موسمی حالات کا تعلق ایک دوسرے کے ساتھ چولی دامن کا ہے۔جہاں زراعت سے وابستہ جی ڈی پی کا 60 فیصد حصے کا دارومدار برساتی پانی پر منحصرہے،اس لئے اس شعبے کے مفاد میں موسمی حالات پر نظر رکھنا ناگزیر بن جاتا ہے بلکہ اس حوالے سے منفی صورتحال کی متبادل منصوبہ بندی بھی اہم ہے۔
دوسری طرف موسمی حالات میں آنے والے بدلاؤ کی وجہ سے کئی مقامات پر زمین حد سے زیادہ گیلی ہو جاتی ہے یا بے تحاشہ خشک ہوجاتی ہے جس سے روایتی فصلوں کی کامیاب کاشت کرنا مشکل یا نا ممکن ہو جاتی ہے۔ایسے حالات کا مْقابلہ کرنے کے ضمن میں ان علاقوں میں موسمی حالات، مْقامی ترجیحات ، پیداوار کی قیمت ، بازار کی مانگ اور دیگر پہلؤوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کاشتکاری کو جاری رکھنے کے سلسلے میں مْتبادل فصلوں کے انتخاب کرنے کے معا ملے میں اے آئی کا استعمال فائدہ مند ثابت ہو ا ہے۔ایسے علاقے جو موسمی یا دیگر امور کی وجہ سے بدلاؤ کے شکار ہیں، جس سلسلے میں مائکرو سافٹ نے کاشتکاری سے متعلق بین الاقوامی ادارے ریسرچ انسٹیٹوٹ فور دا سیمی اریڈ ٹروپکس کے اشتراک سے بھوچیتنا کے نام سے ایک ایپلیکیشن جاری کی ہے۔جس کے ذریعے کسانوں کو خریف کے دوران بیجوں کی بوائی کے لئے وقت کے تعین اور دیگر ضروری امور کے سلسلے میں ہدایات جاری کئے جاتے ہیں۔