امریکی صدر کے دورہ بھارت کے موقع پر اُن کی جانب سے ہمارے ملک کی تعریفیں کرنے پر بھارتیوں کو حق بجانب فخر محسوس ہورہا ہے لیکن ہمیں یہ تعریفیں سن کر مست نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کئی سنگین مسائل ہمارے سامنے ہیں، جنہیں ابھی حل کرنا باقی ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم اپنے سکولوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں ایک المناک صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔
پچھلے 70سال سے ہماری کوشش ہے کہ ہمارے بچے آزاد خیال اور پُر اعتماد شہریوں کی حیثیت سے بڑے ہو اور ان میں جدید دُنیا کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہلیت ہو۔ لیکن ہمارے نظام تعلیم نے انہیں عدم اعتماد کا شکار بنانے اور بے اختیار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ یہ دیکھ کر دل دُکھی ہوجاتا ہے کہ اپنے بچوں کو بہتر اسکولوں میں داخلہ دلانے کے لئے والدین کو ہر سال قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ چونکہ اچھے اسکولوں میں زیادہ داخلوں کی گنجائش نہیں ہوتی ہے، اس لئے بعض والدین کو نامراد ہی لوٹنا پڑتا ہے۔
ہر سال ہمارے یہاں اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ کے ذریعے یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ ہمارے ملک میں پانچویں جماعت کے آدھے طلبا مشکل سے ہی ایک پیرا گراف پڑھ پاتے ہیں یا دوسری جماعت کے نصاب میں شامل ریاضی کا کوئی سوال حل نہیں کرپاتا ہے۔ بعض ریاستوں میں دس فیصد سے بھی کم اساتذہ اہلیت جانچنے کا امتحان یعنی ٹی ای ٹی کا پاس کرپاتے ہیں۔
اترپردیش اور بہار میں چار میں سے تین اساتذہ پانچویں جماعت کے نصاب میں شامل ریاضی کا سوال بھی حل نہیں کرپاتے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال میں یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کہ پروگرام فار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ اسسمنٹ کے سائنس اور ریاضی سے متعلق ٹیسٹ میں ہمارا ملک 74ممالک میں سے 73ویں نمبر پر ( فہرست میں کرغستان سے محض ایک نمبر آگے ) ہے۔
چونکہ اچھے اسکولوں کی قلت ہے، اس لئے والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2011 سے سال 2015 کے دوران سرکاری اسکولوں میں طلبا کا اندارج 1.1کروڑ گھٹ گیا ہے اور اس عرصے میں پرائیویٹ اسکولوں میں طلبا کے اندراج میں 1.6کروڑ کا اضافہ ہوگیا ۔ ا
اس رجحان کے پیش نظر بھارت میں 2020 میں مزید ایک لاکھ تیس ہزار پرائیویٹ سکولوں کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ نئے اسکول نہیں کھل رہے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی ایماندار شخص کو ایک نیا اسکول کھولنے کے لئے 30سے35 انتظامی اجازت نامے حاصل کرنے پڑتے ہیں۔ ان میں سے کئی اجازت ناموں کا تعلق رشوت خوری سے ہے ۔ یعنی یہ اجازت حاصل کرنے کیلئے رشوت دینی پڑتی ہے۔
ایک نیا اسکول کھولنے کے لئے مطلوبہ لوازمات میں شامل سب سے بڑا کام یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ جہاں یہ اسکول کھولا جارہا ہے، وہاں حقیقت میں اسے کھولنے کی ضرورت ہے۔ اس کی سند حاصل کرنے میں سب سے زیادہ رشوت ادا کرنی پڑتی ہے۔ دوسرا مسئلہ فیس کی حد مقرر کرنے سے متعلق ہے۔
در اصل یہ مسئلہ رائٹ ٹو ایجوکیشن یعنی حق تعلیم کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے۔حکومت کو جب یہ اندازہ ہونے لگا کہ سرکاری اسکول ناکام ثابت ہورہے ہیں، تو اس نے پرائیویٹ اسکولوں پر 25فیصد سیٹیں غریب طبقوں کے لئے مختص رکھنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ حالانکہ بنیادی طور پر یہ ایک اچھا قدم ہے ،لیکن اسے نافذ کرنے کا طریقہ غلط ہے۔چونکہ حکومت نے پرائیویٹ اسکولوں کوغریب بچوں کے لئے سیٹیں مختص رکھنے کے عوض مناسب معاوضہ ادا نہیں کررہی ہے، اس لئے باقی ماندہ 75فیصد طلبا پر فیس کا اضافی بوجھ پڑجاتا ہے۔اس پر والدین نالاں ہیں۔
بعض ریاستوں میں فیس پرحد مقرر کرنے کے لئے ایسے قوائد نافذ کئے گئے ہیں، کہ ان کی وجہ سے اسکولوں کی مجموعی مالی حالت ہی خراب ہوگئی ۔نتیجے کے طور پر ان اسکولوں کے معیار تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوگئے ۔ بعض ساکول تو عملاً بند ہی ہوگئے۔
پرائیویٹ اسکولوں کی خود اختیاری پر تازہ حملہ منفرد نصابی کتابوں پر پابندی لگانا ہے۔سال 2015 میں ایچ آر ڈی منسٹری نے اسکولوں کو ہدایت دی کہ وہ صرف حکومت کی جانب سے تیار کردی این سی ای آر ٹی نصابی کتابیں ہی استعمال کریں۔ اس کے نتیجے میں کتابوں کی قیمت کم تو ہوگئی لیکن والدین کو اب معیار تعلیم اور کتابوں کی فراہمی میں تاخیر کے مسئلے نے پریشان کردیا ہے۔
متعدد خود مختار خیراتی اداروں پر مشتمل تنظیم آکسفام نے سال 2015 میں دس ریاستوں میں ایک سروے کے دوران پتہ کیا کہ آدھے اسکولوں میں نصابی کتابیں نہیں پہنچی تھیں۔ اگرچہ این سی ای آر ٹی نصاب کی کتابوں کا معیار بہتر بنایا گیا ہ، لیکن بچوں کاسیکھنے کا عمل وہی گھسا پٹا ہے۔
ماہرین تعلیم کو خدشہ ہے کہ مختلف نواع کی نصابی کتابوں پر پابندی کے نتیجے میں بھارتی بچے جدید دُنیا کے تقاضوں کے مطابق تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہیں گے اور اس وجہ سے مستقبل میں ان کے لئے نوکریوں کے مواقع بھی محدود ہونگے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ایشیا کے اُن ممالک میں اعلیٰ نظام تعلیم ہے ، جس نے ہمارے طریقہ کار سے بالکل متصادم طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔ان ممالک میں مختلف قسم کی نصابی کتابوں کو استعمال کرنے کی چھوٹ ہے۔اس کی وجہ سے ان ممالک کے طلبا کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے ۔کیونکہ اس طرح سے نصابی کتابوں اور امتحانات کے درمیان روایتی رابطہ منقطع ہوگیا ہے اور طلبا کو اپنی ذہانت کا مظاہرہ کرنے کا موقع مل رہا ہے۔چونکہ اساتذہ کو بھی مختلف قسم کا نصابی مواد میسر ہے، اس لئے وہ طلبا کو سکھانے کے بہتر طریقے اختیار کررہے ہیں۔
چین نے تو سنہ 1980کی دہائی میں ہی قومی نصابی پالیسی کو ترک کرکے مختلف قسم کی نصابی کتابوں کا استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی شروع کی تھی۔ وہاں طلبا کو حقیقی زندگی سے متعلق اور جدید دنیا سے متعلق تجربات کی روشنی میں تعلیم دی جارہی ہے۔ ایک آزاد نظام میں ایک طالب علم کو مختلف اقسام کی کتابیں نہیں خریدنی پڑتی ہیں بلکہ بعض ممالک میں طلبا کو کتابیں کرایہ پر فراہم کی جاتی ہیں اور ان کتابوں کو کئی سال تک استعمال کیاجاتا ہے۔کامیاب ایشیائی ممالک اپنے پبلشرز کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور کتابوں کے نصاب کو بہتر بناتے رہتے ہیں اور ساتھ ساتھ اساتذہ کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔
آزادی کے 70سال بعد اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے پرائیویٹ اسکولوں کو خود مختاری دیں۔سنہ 1991کی اصلاحات میں صنعتوں کو آزادی دے دی گئی لیکن ہمارے اسکولوں کو نہیں دی گئی ۔ ہمارے اسکول آج بھی لائسنز راج کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اس سب کے باوجود بھارت کے عروج میں پرائیویٹ اسکولوں نے بے حساب تعاون دیا ہے۔ ان سکولوں سے فارغ التحصیل طلبا نے مختلف پیشوں، سیول سروسز اور تجارت میں اہم مقام حاصل کئے ہیں۔انہوں نے بھارت کو عالمی سطح پر سافٹ وئر میں ایک رتبہ دلایا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ اشتراکیت کی اس منافقت کو ترک کیا جائے، جس میں پرائیویٹ اسکولوں کو منافع کمانے سے منع کیاجاتا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کو اپنا وجود قائم رکھنے کیلئے منافع کمانا چاہیے اور وہ کمارہے ہیں۔ منافع کمانے کے نتیجے میں وہ معیار کو بہتر بنا سکتے ہیں اور بہتر اسکولوں کے لئے مطلوبہ لوازمات پورے کرپاتے ہیں۔
غیر منافع سے منافع بخش کی ایک معمولی سی تبدیلی کے نتیجے میں تعلیمی شعبے میں انقلابی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔اس شعبے میں سرمایہ کاری ہوگی اور اس کے نتیجے میں معیار تعلیم بہتر ہوگا اور اسکولوں کی تعداد بھی بڑھ جائے گی اور والدین کے پاس اپنے بچوں کو معیاری اسکولوں میں داخلہ دلانے کے لئے انتخاب کے مواقع میسرہونگے۔
آج کا بھارتی شہری معیاری تعلیم کی قدر و قیمت سمجھتا ہے۔ جس طرح لوگ بجلی اور پانی کا بل ادا کرتے ہیں، اسی طرح وہ بہتر اور معیاری تعلیم کے لئے فیس بھی ادا کریں گے۔ایک آزاد ملک میں والدین کو زیادہ اسکول فیس ادا کرنے اور بہتر نصابی کتابیں خریدنے کے لئے پیسہ خرچ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاسکتی ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں پر زیادہ قواعد و ضوابط لاگو کرنا بہتر ہے ، جس سےحکومت سرکاری اسکولوں کا معیار تعلیم بہتر بنانے کی طرف توجہ دے گی۔
اس ضمن میں شروعات کرنے کے لئے متعلقہ وزارت کو ایک تو غیر جانبداری کے ساتھ نظام تعلیم کو ٹھیک کرنا ہوگا اور دوسرا سرکاری اسکولوں کو ٹھیک طرح سے چلانا ہوگا۔وقت آگیا ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں کو معیار تعلیم بہتر بنانے کی چھوٹ دی جائے اور سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم کو بہتر بنایا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو وہ قطاریں خود بخود مختصرہوجائیں گی، جن میں والدین کو اپنے بچوں کو بہتر اسکولوں میں داخلہ دلانے کے لئے کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تعلیم سے متعلق ہمارے خوابوں کی تعبیر ملے گی اور شاید کوئی نیا امریکی صدر بھارت کے اپنے دورے کے دوران ہمارے ملک کے معیار ِتعلیم پر اس کی تعریفیں کرے گا۔