اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

'فضائیہ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے'

فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل آر کے ایس بھدوریہ نے آج کہا کہ 'چین کی جانب سے کسی بھی حرکت کا جواب دینے کے لیے فوج نے ہر جگہ پر تعیناتی کر رکھی ہے اور وہ دو محاذ پر ایک ساتھ نمٹنے کے لی بھی پوری طرح تیار ہے'۔

IAF Chief Bhadauria
IAF Chief Bhadauria

By

Published : Oct 5, 2020, 8:30 PM IST

ایئرچیف مارشل بھدوریہ نے فضائیہ کے یوم تاسیس آٹھ اکتوبر سے پہلے آج یہاں روایتی سالانہ پریس کانفرنس میں سوالوں کے جواب میں کہا کہ لداخ تو چھوٹا علاقہ ہے، ہم نے ہر جگہ مکمل مضبوطی کے ساتھ تعینات کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا،’ ہم نے مکمل تیاری کے ساتھ ہر جگہ تعیناتی کر رکھی ہے اور سوال نہیں اٹھتا کہ کسی بھی تصادم کی صورتحال میں چین ہم پرعبور پا سکتا ہے‘۔ شمال۔مشرق کے بارے میں خصوصی طور پر پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ وہاں بھی ہماری تعیناتی اور تیاری دونوں ہے ساتھ ہی فضائیہ کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے طیاروں اور دیگر ساز و سامان کو ضرورت پڑنے پر فوراً ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'فضائیہ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور اس میں دو محاذ پر ایک ساتھ لڑائی کی صورتحال بھی شامل ہے۔ فضائیہ تمام پہلو کو دھیان رکھتے ہوئے تمام صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ ایک سوال کے جواب میں فضائیہ کے سربراہ نے کہا کہ چین کی حرکت کے بارے میں درست ڈھنگ سے پہلی بار مئی میں پتہ چلا اور اس کے بعد ہم فوراً حرکت میں آ گئے۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہمیں حیرت ہوئی لیکن ہمیں اس کی توقع نہیں تھی۔ چین کی فوج عام طور پر اس وقت مشق کرتی ہے لیکن اس بار اس نے یہ حرکت کی۔ جیسے ہی ہمیں پتہ چلا، ہم نے فوراً اقدام کیا۔ فوج کی جو بھی ضرورت تھی جوانوں کو لے جانے کی یا دیگر ساز و سامان پہنچانے کی وہ فوراً مکمل کی گئی۔ اس بار کسی طرح کی کمی نہیں چھوڑی گئی۔ پہلے کبھی اتنی چابک دستی سے کام نہیں ہوا۔

ایک دیگر سوال کے جواب میں فضائیہ کے سربراہ نے کہا کہ جہاں تک چین کے پاک مقبوضہ کشمیر میں واقع اسکاردو ایئر بیس کا استعمال ہندوستان کے خلاف کرنے کی بات ہے‘ یہ اوپن آپشن کی طرح ہے۔ اگر چین اسکاردو کا استعمال کرتا ہے تو یہ ملی بھگت پر مبنی خطرہ ہوگا اور ہم اسی کے مطابق اس سے نمٹیں گے۔

ایک دیگر سوال کے جواب میں ایئرچیف مارشل بھدوریہ نے کہا کہ دشمن (چین) کو کمتر گرداننے کا سوال ہی نہیں ہے۔ ان کی اپنی طاقت ہے۔ ان کی طاقت سطح سے ہوا میں مار کرنے والے نظام اور طویل مسافت کی میزائل میں ہے۔ ان کے پاس جے۔20 بھی ففتھ جنریشن کا بہترین طیارہ ہے۔ سینسر اور ہتھیار کے معاملے میں ان کے پاس جدید آلہ ہے لیکن انجن کے معاملے میں نہیں۔ لیکن اس علاقے کے مد نظر ہماری بھی اپنی تیاری ہے۔ اس کی استعداد و صلاحیت کے پیش نظر بھی ہم نے لائحہ عمل تیار کر رکھا ہے۔ ہماری تیاری ہر پہلو کو دھیان میں رکھ کر کی گئی ہے۔

آئندہ تین ماہ میں کیا صورتحال ہوگی، یہ پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مختلف سطح پر جاری بات چیت کیسے آگے بڑھتی ہے۔ ابھی رفتار بہت سست ہے۔ امید ہے کہ بات چیت درست سمت میں آگے بڑھے گی۔ ہم زمینی حالات کے بطور اقدام کر رہے ہیں۔

امریکہ کی جانب سے علاقے میں جنگی طیارے کی تعیناتی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ امریکہ کی تعیناتی اس کے نقطہ نظر کے مطابق کی جاتی ہے۔ نہ ہی ہماری ضرورت تھی اور نہ ہی اس کے لیے ہم نے تال میل کیا اور نہ درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ کسی خطرے سے نمٹنے کے لیے ہندوستان اپنے منصوبے میں کسی دوسرے کو شامل نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا،’ہماری لڑائی میں کوئی نہیں لڑے گا۔ ہمیں اپنی جنگ خود لڑنی ہوگی‘۔

لڑائی میں ڈرون طیاروں کے استعمال کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ یہ اطلاع اکٹھا کرنے اور سروغ رسانی اور نگرانی مشن کے لیے بہت کارآمد ہے لیکن ان سے جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔

جب رافیل طیاروں کی فراہمی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ پانچ طیارے ہندوستان آ گئے ہیں۔ تین یا چار طیارے اس ماہ کے آخر میں یا اگلے ماہ کے اوائل میں پہنچیں گے۔ اس کے بعد یہ طیارے ہر دو تین ماہ بعد باقاعدگی سے آئیں گے۔ آئندہ سال رافیل کا پہلا سکواڈرن تیار ہوگا اور بعد میں دونوں اسکواڈرن مکمل طور پر تعینات ہوں گے۔

فرانس سے موجودہ سودے کے 36 طیاروں کے علاوہ رافیل طیاروں کی خریداری کے امکان پر انہوں نے کہا کہ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ ہم فی الحال 83 ہلکے لڑاکا طیاروں پر توجہ دے رہے ہیں۔ اس کے بعد 114 کثیر المقاصد لڑاکا طیاروں اور ایچ ٹی ٹی 40 کے منصوبے بھی ہیں، تو ابھی اس بارے میں کچھ کہنا جلد بازی ہوگی۔ ان تمام موضوعات پر بات چیت جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایئرفورس کو دیسی ہلکے لڑاکا طیاروں پر اعتماد ہے اور آئندہ پانچ سالوں میں اس طرح کے 83 طیارے فضائیہ کے بیڑے میں شامل ہوجائیں گے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگلی دہائی میں فضائیہ کو 400 سے 450 پلیٹ فارم مل سکتے ہیں۔ اس اندازے کے مطابق کہ آنے والے عشرے کے اختتام پر ایئرفورس طیاروں کے اسکواڈرن کی تعداد 36 سے 37 تک جاسکتی ہے۔ انہوں نے نجی شعبے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ابھی نجی اور سرکاری شعبے کی شراکت داری کا صحیح موقع ہے اور اس سے اچھے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

رافیل طیاروں میں جدید ترین میزائل تعینات کرنے کے امکان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اب ہم دیسی میزائل تیار کرنے پر غور کر رہے ہیں اور اگر یہ انجام تک پہنچ جاتا ہے تو پھر اس طرح کے میزائل خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ مختلف طیاروں پر اسی طرح کے ہتھیار نصب کیے جانے کے معاملے پر بھی بات کی جار ہی ہے۔

چین اور پاکستان کی ملی بھگت سے متعلق براہ راست سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر چین اسکاردو ایئر بیس کا استعمال کرتا ہے تو وہ پاکستان کی مدد لے گا اور یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی بات ہے۔ اس طرح کی ملی بھگت سے اسی طرح نمٹا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ہم اس صورتحال پر مستقل نظر رکھتے ہوئے ہیں اور ابھی چین کی جانب سے ملی بھگت کا منصوبہ نظر نہیں آتا ہے اور نہ ہی اس قسم کے خطرے کا کوئی اشارہ ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کا انحصار چین پر مستقل طور پر بڑھ رہا ہے اور یہ دونوں مل کر بہت ساری مشقیں کررہے ہیں۔

ایئر ڈیفنس سسٹم کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس میں اچھی پیشرفت ہو رہی ہے اور اس پر صحیح سمت میں کام جاری ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details