بکسر کے سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ وجے کمار اروڑا نے بتایا کہ بکسر جیل میں پہلےسے ہی پھانسی کا پھندا بنایا جاتا ہے۔ یہ یہاں کے لئے عام بات ہے۔ ملک کے کسی بھی جیل میں جب پھانسی دیا جاتا ہے تو یہاں کی ہی رسی کا استعمال کیا جاتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ فی الوقت دس پھندے بنائے جا رہے ہیں
بکسر سینٹرل جیل میں بنی رسی سے نربھیا کے مجریم کو ہوگی پھانسی ان کا کہنا تھا کہ اگر کہیں سے بھی سرکاری طور پر پھندے کا مطالبہ کیا جائے گا تو اسے دستیاب کروایا جائے گا، انہوں نے بتایا کہ اب تک کہیں سے بھی اس کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے
نیز یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سنۂ 2012 میں دہلی میں نربھیا جنسی زیادتی کیس کے مجرمین کو بھی یہاں کی ہی بنی رسی سے پھانسی پر لٹکایا جائے گا لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ نربھیا نربھیا جنسی زیادتی کیس کے مجرم ونے شرما نے صدر رام ناتھ كوود کے پاس رحم کی درخواست دی ہے
اس کیس میں دہلی حکومت نے اپنی رپورٹ مرکزی وزارت داخلہ کو ارسال کردیا ہے، ابھی وزارت داخلہ نربھیا کے مجرمین کی رحم کی درخواست کو صدر کے پاس بھیجے گی اس کے بعد صدر رام ناتھ کووند اس بارے میں فیصلہ کریں گے۔
بکسر سینٹرل جیل میں بنی رسی سے نربھیا کے مجریم کو ہوگی پھانسی بکسر جیل میں 1884 میں پہلی بار بنے پھندے سے بھارتی قیدی کو پھانسی دی گئی تھی اس کے بعد بکسر سے ملک کی تمام جیلوں میں پھانسی کے لئے رسی منگوائی گئی۔
سنۂ 1844 ء میں انگریز حکمرانوں کی طرف سے بکسر کے سینٹرل جیل میں پھانسی کا پھندہ تیار کرنے کی فیکٹری لگائی گئی تھی اور یہاں کی ہی تیارکردہ پھانسی کے پھندے سے پہلی بار سن 1884 ء میں ایک بھارتی شہری کو پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔
اس سے قبل یہ رسی فلپائن کی منیلا جیل میں بنائی جاتی تھی، لہذا اسے منیلا رسی بھی کہا جاتا ہے، ملک میں جب جب موت کا فرمان جاری ہوتا ہے، تو بکسر سینٹرل جیل کا بھی ذکر ہونے لگتا ہے اور اس جیل کے قیدی ہی منیلا رسی کو تیار کرتے ہیں، اسے خاص قسم کے دھاگوں سے تیار کیا جاتا ہے۔
جیل دستی کے مطابق ایک پھانسی کی رسی کو تیار کرنے میں تین سے چار دنوں کا وقت لگتا ہے، اور یہ کام دو تربیت یافتہ قیدیوں کی نگرانی میں انجام دیا جاتا ہے، جیل کے احاطے میں ان کے لئے ایک الگ کمرہ ہے، ان رسی کا ایک طے معیار کے مطابق طول عروض اور وزن مقرر ہے۔