اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عید گاہ کیس کی سماعت آج

قومی دارالحکومت دہلی میں مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اس کیس کے لیے جمعیۃ علماء کی جانب سے سینیئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون پیش ہوں گے۔

گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عید گاہ کیس سماعت آج
گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عید گاہ کیس سماعت آج

By

Published : Jul 10, 2020, 7:36 AM IST

ریاست اتر پریش کے بنارس میں واقع گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عید گاہ معاملے میں سپریم کورٹ میں آج اہم سماعت کے بعد عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا درخواست کو سماعت کے لیے قبول کیاجائے گا یا نہیں۔

دہلی میں 9 جولائی سنہ 2020 کو گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عید گاہ تنازعہ حل کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن پر کل سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ سماعت کرے گی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے رجسٹرار کی جانب سے جاری کی گئی کاز لسٹ یعنی (سماعت کے لیے پیش ہونے والے مقدمات کی فہرست) کے مطابق اس معاملہ کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڑے، جسٹس سبھاش ریڈی اور جسٹس اے ایس بوپنا کریں گے۔

گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عید گاہ معاملہ حل کرانے کے لیے ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ و دیگر نے پٹیشن داخل کرکے عبادت کے مقام کے قانونی یعنی کہ 'پلیس آف ورشپ' ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔

پجاریوں کی جانب سے داخل کی گئی پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیے جمعیۃ علماء ہند نے بھی مداخلت کار کی درخواست داخل کی ہے، جس میں جمعیۃعلما ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی کی ہدایت پر گلزار اعظمی قانونی امدادی کمیٹی کو مدعی بنایا گیا ہے۔

خیال رہے کہ اس کا ڈائری نمبر 12395/2020 ہے، جو جمعیۃ علما کی مداخلت کار کی درخواست کو بھی ہندوسادھوؤں کی جانب سے داخل کردہ پٹیشن کے ساتھ سماعت کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔

عدالت اس پر بھی فیصلہ کرسکتی ہے آیا جمعیۃ علما کو اس معاملہ میں مداخلت کرنے کی اجازت دی جائے یا نہیں۔

واضح رہے کہ بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ آج ہونے والی سماعت پر جمعیۃ علما ہند کی جانب سے سینیئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون پیش ہوں گے۔

یاد رہے کہ یہ قانون (پلیس آف ورشپ ایکٹ) 18 ستمبر سنہ 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق سنہ 1947 میں ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے، تاہم صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا، کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔

اس سے قبل ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی جانب سے داخل کردہ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے تو عدالت ہندو سادھوؤں کی جانب سے داخل پٹیشن کو سماعت کے لیے قبول ہی نہ کرے اور اسے خارج کردے، کیونکہ اگر عدالت اسے سماعت کے لیے قبول کرلیتی ہے تو بھارت کے انصاف وامن پسند عوام بالخصوص مسلمانوں میں تشویش پیدا ہوجائے گی۔

اور ایسا اس لیے کہا جارہا ہےکیوں کہ بابری مسجد فیصلہ آنے کے بعد سے ہی مسلمان عبادت گاہوں کے تحفظ کو لیکر فکر مند ہیں، نیز ملک کی قومی یکجہتی کو اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔

عرضداشت میں مزید لکھا گیا ہے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند اہم فریق تھی، جس میں پلیس آف ورشپ قانون کی دفعہ چار کو قبول کیا گیا ہے، اور اس قانون کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے، لہذا اب اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک با ر پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

عرضداشت میں نیز کہا گیا ہے کہ اگر ہندو سادھوؤں کی جانب سے داخل کردہ عرضداشت کو عدالت نے سماعت کے لیے قبول کرلیا تو مقدمہ دائر کرنے کا ایک سیلاب آجائے گا، جس کی وجہ سے ملک میں مزید بدامنی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔

واضح ہو کہ آج سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت سے قبل گزشتہ روز ایڈوکیٹ اعجاز مقبول اور ان کی معاون وکیل آکرتی چوبے نے ڈاکٹر راجیو دھون سے ان کی آفس میں کانفرنس بھی کی، اس دوران سادھوؤں کی تنظیم کی جانب سے داخل پٹیشن کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا اور آج ہونے والی سماعت کے لیے لائحہ عمل تیار کیا گیا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details