پاکستانی وزیراعظم 'جنوبی ایشیاء، خلیجی ممالک اور وسطی ایشیا میں امن اور ترقی' کے تعلق سے مارگلہ ڈائیلاگ 2019 کے اختتامی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے دوران خطاب کہا کہ: 'ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے ، ہم (پاکستان اور بھارت) مل کر غربت، موسمیاتی تبدیلیوں اور بھوک کے چیلنجز سے لڑ سکتے ہیں۔'
'بھارت - پاکستان کے مابین دوستانہ تعلقات جنوبی ایشیا کے لیے ناگزیر' ایران- سعودی عرب اور ایران- امریکہ تنازعات کا ذکر کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کسی دوسرے ملک کی جنگ نہیں لڑے گا۔
انہوں نے عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ بھارت کی وجہ سے خطے میں ایک انتہائی سنگین صورتحال پیدا ہو رہی ہے اور کہا: 'وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری اس پر اقدام کرے۔ ورنہ نتائج کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔'
انہوں نے کہا کہ 'بھارت انتہا پسند نظریات کے حامل افراد اور نسل پرستوں کے ہاتھوں میں ہے' جو جنوبی ایشیائی خطے میں 'نظریہ نفرت' کو فروغ دے رہے ہیں۔ 'کوئی نہیں جانتا کہ اب بھارت کس طرف جا رہا ہے۔ لوگوں کے ساتھ ساتھ میڈیا بھی خوفزدہ ہے۔ اس سے صرف تباہی ہوگی اور بھارت کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔'
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'بھارت کے نفرت پر مبنی نظریہ اور مسئلہ کشمیر کی وجہ سے پاکستان بھی خطرے سے باہر نہیں ہے۔ (بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اندھی گلی میں ہیں۔ کشمیری عوام گذشتہ 100 دن سے کرفیو میں زندگی گزار رہے ہیں، انسانی حقوق پامال کیے جارہے ہیں اور شہری آزادیاں چھین لی گئیں ہیں۔ مسلم قیادت کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور رات کے اندھرے میں نوجوانوں کو اٹھایا جارہا ہے'۔
مسٹر خان نے کہا کہ پاکستان کسی اور ملک کی جنگ کے لئے کسی بھی اتحاد میں شامل نہیں ہو گا بلکہ وہ 'مصالحت کار' کا کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا، 'پاکستان نے گذشتہ چار دہائیوں سے اپنی خارجہ پالیسی سے سبق سیکھا ہے اور ہم کسی اور کی جنگ نہیں لڑیں گے۔'
انہوں نے یاد دلایا کہ 1980 کی دہائی کے افغان جہاد اور 9/11کے واقعے کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے دوران پاکستان کو ایک فرنٹ لائن اسٹیٹ ہونے کی وجہ سے بے حد تکلیف کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ ان جنگوں کے دوران غیر ملکی فنڈنگ پاکستان میں ہوئی لیکن معاشرے میں تباہی کی صورت میں ادا کی جانے والی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'ان جنگوں کے منفی اثرات پاکستان کے معاشرے پر مرتب ہوئے جس کا تجزیہ ابھی بھی پاکستان نہیں کر پا رہا ہے۔ اسی لیے اب ہم نے جوڑنے اور صلح کرنے والوں کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔'
عمران خان نے کہا کہ 'پاکستان اصلاحی اقدامات اٹھا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہے، جس میں آسانی سے کاروبار کرنے کا طریقہ متعارف کروانا اور ملک میں سیاحت اور کھیلوں کو فروغ دینا شامل ہیں۔'
اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آر آئی) کے زیر اہتمام دو روزہ ڈائیلاگ میں خطے میں موجودہ چیلنجز کے منظر نامے پر تبادلہ خیال کے لئے 13 ممالک کے سکیورٹی اور سیاسی ماہرین اکٹھے ہوئے۔ چار سیشنز کے دوران ماہرین نے مختلف علاقائی اور موجودہ امور پر تبادلہ خیال کیا جن میں کشمیر تنازعہ، افغانستان تنازعہ ، مشرق وسطی کی صورتحال، جغرافیائی سیاسی صورتحال میں پاکستان کا کردار ، سائبر سکیورٹی، آب و ہوا کی تبدیلی اور پانی کی حفاظت شامل ہیں۔