اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

'عوام کی شہریت حکومت طے نہیں کر سکتی'

شہریت ترمیمی بل جیسے فرقہ پرست اور ملک مخالف قوانین کے تباہ کن اور خطرناک نتائج سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اس کی مخالفت کرنا ضروری ہے۔ یہ بات جموں و کشمیر کے معاملے میں مرکزی حکومت کے یکطرفہ فیصلے کے خلاف ملازمت سے استعفیٰ دینے والے آئی اے ایس افسر کنن گوپی ناتھن نے ایک تقریب میں کہی۔

'عوام کی شہریت حکومت طے نہیں کر سکتی'

By

Published : Nov 15, 2019, 5:58 PM IST

انہوں نے کہاکہ انسداد دہشت گردی کے نام پر موجودہ حکومت نے جس طرح عوام کو سازش کا شکار بنایا ہے وہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ملک کے غریب عوام کے لیے بھی خطرناک ہے، اس لیے شہریت ترمیمی بل اوراین آر سی اور جیسے سیاہ قوانین کے خلاف عوام کواحتجاج کرنا چاہیے۔'

انہوں نے کہاکہ این آرسی سے بچنے کے لیے دستاویز جمع کرنے کے بجائے اس کی پرزور مخالفت کی جانی چاہیے۔ عوام کی شہریت حکومت طے نہیں کر سکتی۔ ہمیں یہ عزم کرنا چاہئے کہ ہم اپنے ملک کو فرقہ واریت کی بنیاد پرتقسیم نہیں ہونے دیں گے اور کسی ایک فرقہ کو اس کا نشانہ نہیں بننے دیں گے'۔

انہوں نے 'این آر سی، شہریت ترمیمی بل اور ڈٹنشن کیمپ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقتدار سنبھالنے والے چند افراد سماج کی گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرکے ہندو راشٹر کے راستے پر لے جانا چاہتی ہیں۔ وہ اکثریتی اور اقلیتی آبادی کی بنیاد پر ملک کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ شہریت ترمیمی بل اور این آر سی کی پیشکش بھی اسی سازش کاحصہ ہے۔ اب ہمیں اس کے نفاذکا انتظار کرنے کے بجائے اس کی سخت مخالفت کرنی چاہئے، احتجاج کے علاوہ ہمارے سامنے کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

مسٹر گوپی ناتھن نے کہا کہ سوالات جمہوریت کی جان ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے سیاہ قوانین کے خلاف ملک بھر میں سناٹاچھایاہوا ہے اور ہر کوئی زبان کھولنے سے ڈر رہا ہے۔ مرکزی حکومت کالا دھن اور دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر جمہوری قوانین میں ترمیم کر کے سیاہ قوانین وضع کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریت ترمیمی بل اور این آر سی کے نام پر مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اس کے لیے ملک بھر میں ڈٹنشن کیمپ بنائے جارہے ہیں۔

مسٹر گوپی ناتھن نے الزام لگایا کہ ملک کا وزیر داخلہ علی الاعلان فرقہ پرستی کا کارڈ کھیل رہا ہے اورسبھی ریاستوں کو ایڈوائزری جاری کر کے ڈٹنشن کیمپ بنانے کا حکم دے رہا ہے۔ مگر افسو س اس بات کا ہے کہ ملک کے عوام خاموش ہیں، میڈیا اور عوام سوالات کرنے کے بجائے اس کے نفاذ کا انتظار کر رہے ہیں۔ جبکہ بلا تفریق ایسے سیاہ قوانین کی ہر سطح پر مخالفت کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کی اس منشا پر خوف زدہ ہونے کے بجائے اس کے خلاف احتجاج کرنا ہوگا۔

انہہوں نے کہاکہ جموں وکشمیر کے 80 لاکھ عوام کے بنیادی حقوق پر براہ راست حملے کے خلاف ہم نے اپنی ملازمت چھوڑ دی، وہاں کے منتخب ایم پی اور ایم ایل اے کوبھی نہیں بخشا گیا۔ انہوں نے حکومت کے اس جواز کی بھی سخت مذمت کی اور کہا کہ دہشت گردی کے نام پر یہ عوام کے بنیادی پر براہ راست حملہ ہے۔ایسے سیاہ قوانین کے خلاف ہمیں آواز بلند کرنی ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ شہریت ترمیمی بل اور این آر سی سے بچاؤکے لئے دستاویز جمع کرنے کے چکر میں پڑنے کے بجائے اس کی پرزور مخالفت ہونی چاہئے ورنہ جس روز شہریت کھو دیں گے تو احتجاج کے لائق بھی نہ ہوں گے۔گوپی ناتھن نے کہا کہ آپ ووٹ کسی کو بھی دیں مگر سوال ضرور کریں اور اس بات کاعزم کریں کریں کہ ہم اس کے خلاف احتجاج کرتے رہیں گے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

سمینار کی نظامت محمد غالب نے کی جبکہ صدارت ڈی ایم دیواکر نے انجام دی۔ اس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ چلا جس میں اس موضوع سے متعلق کئی چبھتے ہوئے سوالات رکھے گئے۔ سوالات رکھنے والوں میں کاشف یونس، انوارالہدیٰ، روی یادو، روبی کماری، وغیرہ کے نام ہیں۔ اس موقع پر ضلع کمیٹی، سی پی آئی مالے، جہاں آباد کے شری یادو کے ذریعہ تحریر کردہ ایک رپورٹ جہاں آبا دنگا: آنکھوں دیکھا حال کا بھی اجراء ہوا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details