دہلی میں گزشتہ 21 دنوں سے کسان زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ کسان اب بھی اپنے مطالبات پر قائم ہیں۔ کسانوں کی تحریک کو لے کر راشٹریہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کی۔
سوال: کسان احتجاج کو 20 دن ہو چکے ہیں، سردی کے موسم میں کسان سڑکوں پر ہیں۔ آپ کو حکومت سے کتنی امیدیں ہیں؟
راکیش ٹکیت نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ' 21 دنوں سے کسان احتجاج کر رہے ہیں، حکومت کو ہماری بات سننی چاہئے، ہم حکومت کی بات سننے کے لیے تیار ہیں۔'
سوال: اب تک حکومت سے چار بار مذاکرات ہوچکے ہیں۔ لیکن کامیابی نہیں ملی۔ آئندہ کیا لگتا ہے آپ کو؟
جواب: ہاں! حکومت کے ساتھ تین سے چار بار بات ہو چکی ہے، فی الحال حکومت سے بات چیت بند ہے۔ حکومت ترمیم چاہتی ہے اور کسان اس قانون کو واپس کرانا چاہتے ہیں۔
راشٹریہ کسان یونین کے رہنما راکیش ٹکیت سے خاص بات چیت سوال: کیا آپ کے خیال میں حکومت کسانوں کے حق میں قانون میں تبدیلی کے لئے تیار نہیں ہے؟ حکومت کا آخر مقصد کیا ہے؟
جواب : حکومت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ حکومت کو اس معاملے پر سوچنا چاہئے، اور مناسب فیصلہ کرنا چاہئے۔
سوال: حکومت تحریک ختم کرنا چاہتی ہے یا سست کرنا چاہتی ہے؟
جواب: حکومت چاہتی ہے کہ تحریک ختم ہو اور کسان اپنے گھر چلے جائیں، لیکن کسان گھر جانے والے نہیں ہیں۔
سوال: تینوں نئے زرعی قوانین سے منڈیاں کیسے متاثر ہوں گی؟ آپ ایم ایس پی کے بارے میں کیا چاہتے ہیں؟
جواب: منڈیاں دو برس میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گی، حکومت کو ایم ایس پی سے متعلق قانون بنانا چاہئے، ہم یہ چاہتے ہیں۔
سوال: کسانوں کی تحریک کو سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر کے ذریعے ٹرول کیا جارہا ہے۔ خالصتانی تحریک کہا جا رہا ہے؟
جواب: کسانوں نے ان الفاظ پر پابندی عائد کردی ہے، یہاں احتجاج کرنے والے تمام کسان ہیں، کون افواہیں پھیلارہا ہے، ہمیں نہیں معلوم؟ ہوسکتا ہے کہ حکومت کے لوگ افواہیں پھیلارہے ہیں۔
سوال: حکومتی وزراء کا کہنا ہے کہ کسانوں کی تحریک میں صرف پنجاب کے کسان حصہ لے رہے ہیں۔ کیا یہ کسانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے؟
جواب - یہاں اور بھی کسان ہیں۔ یہ صرف پنجاب کے کسانوں کا نہیں بلکہ پورے ملک کے کسانوں کا مسئلہ ہے۔
سوال: اکثر تحریک کے دوران آپ یہ کہتے رہتے ہیں کہ حکومت سے حساب کرنا چاہئے، آپ کس حساب کی بات کر رہے ہیں؟
جواب: سنہ 1967 میں حکومت ہند نے گیہوں کو 76 روپے فی کوئنٹل کی شرح دی تھی، اساتذہ کی تنخواہ 70 روپے تھی، ایک ٹیچر ایک ماہ کی تنخواہ میں ایک کوئنٹل گیہوں نہیں خرید سکتا تھا، 200 روپے فی تولہ سونے کی قیمت تھی اور تین کوئنٹل گیہوں میں ایک تولہ سونا آتا تھا، ہمیں بھی تین کوئنٹل گیہوں میں ایک تولہ سونا چاہئے۔
سوال: یہ بھی الزامات ہیں کہ بیرون ملک سے کسانوں کی نقل و حرکت کے لئے فنڈز دیئے جارہے ہیں، حقیقت کیا ہے؟
جواب: بیرون ملک سے فنڈز نہیں آ رہے ہیں۔ حکومت ہمارے تو پیسے نہیں دے رہی ہے، بیرون ملک سے فنڈز کہاں سے آ جائےگا۔
سوال: دوسری سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ کسانوں کے ساتھ ہیں، اس پر آپ کیا کہیں گے؟
جواب: کوئی بھی سیاسی جماعت کسانوں سے ملنے نہیں آتی، سب جھوٹ ہے۔
سوال: آپ 'گنا بیلٹ' کے بڑے کسان رہنما ہیں، گنے کی ایم ایس پی اور ادائیگی کے سلسلے میں کسانوں کا کیا مطالبہ ہے؟
جواب: حکومت گنے کے ایم ایس پی کو طے کر دے۔ اس کی شرح میں اضافہ خود بخود اضافہ ہو جائےگا۔