زرعی قوانین کے معاملے پر مرکزی حکومت اور کسان تنظیموں کے درمیان 11 ویں دور کی میٹنگ بے نتیجہ ختم ہوگئی۔ آج کی میٹنگ میں حکومت نے کساونں سے کہا کہ ہم اس سے بہتر کچھ نہیں کرسکتے، حکومت اور کسانوں کے درمیان اگلی بات چیت کی تاریخ طے نہیں ہوئی ہے۔
نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ زرعی قوانین پر حکومت ڈیڑھ سال تک روک لگانے کے لیے تیار ہے۔ اس سے بہتر تجویز حکومت نہیں دے سکتی۔ نریندر تومر نے کہا کہ اگر کسان بات چیت کرنے کو تیار ہے تو یہ کل بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن وگیان بھون کل خالی نہیں ہے۔ وزیرزراعت نے بات چیت کے لیے کسانوں کا شکریہ ادا کیا۔
متحدہ کسان مورچہ نے گذشتہ روز حکومت کی جانب سے پیش کردہ تجویز کو مسترد کردیا ہے۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس قانون پر عمل درآمد ڈیڑھ سال کے لئے ملتوی کیا جاسکتا ہے۔
کسان اور حکومت کے درمیان 10 دور کی بات چیت بے نتیجہ ختم ہو چکی ہے۔ حکومت قانون کو واپس لینے کے لئے تیار نہیں ہے حالانکہ حکومت نے اسے ڈھائی سال کے لئے ملتوی کرنے کی تجویز کسانوں کے سامنے پیش کی تھی لیکن کسانوں کا صاف لفظوں میں کہنا ہے کہ وہ اپنے مظاہرے کو تب تک جاری رکھیں گے جب تک حکومت تینوں نئے زرعی قوانین کو واپس نہیں لے گی جبکہ حکومت قانون میں ترمیم کے لئے تیار ہے لیکن اسے مکمل طور پر قانون کو واپس لینا منظور نہیں ہے۔ اس دوران گزشتہ دو مہینوں سے کسان دہلی کے مختلف بارڈر پر شدید سردی اور بارش کے درمیان مستعید ہیں۔
وہیں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے حکومت کے ذریعہ کسانوں کا مسئلہ نہ کرنے اور قومی سلامتی کے حوالے سے خاموشی اختیار کرنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جمعہ کے روز کہا کہ حکومت کو کسانوں کے مطالبات مان لینے چاہیے اور قومی سلامتی سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔
وہیں بی جے پی کی سینئر رہنما اوما بھارتی نے زرعی قوانین پور نصیحت دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں ضد اور تکبر کو ترک کرنا ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس معاملے میں مزید کچھ نہیں کہیں گی۔