اگر کسی واضح شبیہ کا امیدوار میدان میں آجاتا ہے تو جیت کے امکانات صرف پانچ فیصد ہی رہ جاتے ہیں، اگر امیدوار داغدار ہونے کے ساتھ ساتھ پیسے والا ہو تو جیتنے کے امکانات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، جیس کے بعد املاک بھی دوگنا ہوجاتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ سیاسی دنیا میں، جرم کے ساتھ تعلیم کا کوئی معنی نہیں ہے، جو جتنا تعلیم یافتہ ہے ان پر الزامات اور پیسے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
جمعہ کو جاری کر دہ الیکشن واچ اور اے ڈی آر کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست بہار میں سنہ 2005 کے بعد سے اب تک ہوئے انتخابات کے امیدواروں اور جیت حاصل کرنے والے اراکین اسمبلی اور پارلیمان کے تجزیے کے بعد جو رپورٹ سامنے آئی ہے یہ اس کا لب و لباب یہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق سنہ 2005 سے اب تک 10،785 امیدواروں نے انتخابات لڑے ہیں جن کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ان امیدواروں میں 30 فیصد وہ تھے جنہوں نے اپنے اوپر مجرمانہ الزامات کا اعلان کیا۔ ان داغدار لوگوں میں سے 20 فیصد امیدوار ایسے ہیں جن پر سنگین جرم کے الزامات عائد ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جیت حاصل کرنے کے بعد 820 اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمان کا تجزیہ کیا گیا، ان میں سے 57 فیصد پر مجرمانہ الزامات تھے، جن میں سے 36 فیصد پر سنگین جرم کے الزامات ہیں، یعنی انہیں امیدواروں نے زیادہ کامیابی حاصل کی جن پر جن پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔
اسی طرح اگر امیدواروں کے اثاثوں اور جیتنے والے کے اثاثوں کا تجزیہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ دونوں کے درمیان دو گنا فرق ہے۔ تمام امیدواروں کے پاس اوسطا 1.09 کروڑ کے اثاثے تھے۔ جیت کے بعد جب اراکین پارلیمان اور ایم ایل اے کے اثاثوں کا ان کے اعلامیے کی بنیاد پر جائزہ لیا گیا تو اوسطا اثاثے بڑھ کر 2.25 کروڑ ہوگئے۔