اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

آندھرا پردیش کی امراوتی کا مسقبل خطرے میں

وائی سی پی حکومت نے راجدھانی کے علاقہ میں 120معزز اداروں کے قیام کو غیر یقینیت کا شکار کر کے ریاست کے مستقبل کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے

آندھرا پردیش کی امراوتی کا مسقبل خطرے میں
آندھرا پردیش کی امراوتی کا مسقبل خطرے میں

By

Published : Jan 28, 2020, 6:03 PM IST

Updated : Feb 28, 2020, 7:33 AM IST


سپریم کورٹ نے بار بار اس بات کو دہرایا ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو آئین اور قانون اس سے زیادہ عظیم ہیں۔آندھراپردیش کی دارالحکومت میں چل رہے میگا ڈیولویمنٹ منصوبے کو روکنے والا مطلق العنان رویہ کافی حیران کن تھا۔

اس وجہ سے ریاست کے دارالحکومت امراوتی میں ترقیاتی سفر طئے کرنے میں مشکلات ہوگئی ابھی تک آندھراپردیش کی حکومت نے بھاری عددی اکثریت کے ساتھ قانون ساز اسمبلی میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ پچھلے پانچ سال کی نہیں بلکہ سو سال کی غلطیوں کی اصلاح کررہی ہے۔

اسمبلی میں اس طرح کے مشکوک بیانات دیے گئے کہ ہم امراوتی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتے ہیں، بلکہ بقیہ علاقوں کے ساتھ بھی انصاف کرتے ہیں۔
اب سرکار کی ظالم لاٹھیاں ان کسانوں کے خاندانوں پر برسیں گی، جنہوں نے نو تشکیل شدہ ریاست کی 'خوابوں کی راجدھانی' کی ترقی کیلئے 34 ہزار ایکڑ زمین چھوڑ دی تھی۔ خودکسانوں کی جانب سے رضاکارانہ طور پر بڑے پیمانے پر چھوڑی ہوئی زمین پر ہی اسمبلی کی تعمیر کی گئی تھی جو اب ان کسانوں کی امنگوں کیلئے سزائے موت لکھے گی۔
کیا وائی سی پی نے کبھی یہ اعلان کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں وہ امراوتی کی شان کو گھٹا کر اسکے بجائے تین راجدھانیاں بنائے گی؟نہیں،کبھی نہیں۔ایسا لگتا ہے کہ انتخابات میں غیر متوقع کامیابی حاصل کرنے کے بعد اس طرح کے زہریلے خیالات ذہن میں ابھرنے لگے ہیں۔


جونہی زمامِ اقتدار وائی سی پی کے ہاتھوں میں آئی ویسے ہی وسیع ترقیاتی سرگرمیوں کا جاری سلسلہ رک گیا اور اب یہ کہانیاں بنائی جارہی ہے کہ امراوتی ایک سیلابی علاقہ ہے اور یہاں کی زمین کے غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے تعمیراتی اخراجات بہت زیادہ ہونگے ۔

وزراء کی جانب سے یہ دعویٰ کرایا گیا کہ داخلی تجارت کے ذریعہ بد عنوانی ہورہی ہے۔وزیرِ اعلیٰ کا یہ بیان آنا کہ جنوبی افریقہ کی طرح قانون سازی،انتظامیہ اور قانونی معاملات کیلئے علیٰحدہ راجدھانیاں بنانے کی نئی سوچ پیدا ہونی چاہیئے۔ماہرین کمیٹی،بوسٹن کنسلٹنسی گروپ کیلئے یہ بات ایک خوش خبری کی طرح معلوم ہورہی تھی۔

اعلیٰ اختیار والی کمیٹی بھی اب حکومت کے اس دھن پر ناچ رہی ہے یہاں تک کہ سبھی خطوں کے مربوط ترقی کے نام پر امراوتی کی مرکزیت کو ختم کرنے کی تیاریاں مکمل کی جاچکی ہیں۔اس طرح وزیرِ اعلیٰ کی خواہش کو پورا کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔

چھ سال قبل یو پی اے حکومت نے دارالحکومت کے بغیر اور 17 ہزار کروڑ روپے کے محصولات کے خسارہ کے ساتھ آندھرا پردیش کو نئی ریاست کے طور پر تشکیل دی تھی ۔
سنہ 2014 میں وائی سی پی نے اپنے انتخابی منشور میں یہ فخریہ دعویٰ کیا کہ وہ عالمی معیار کی ایسی خوبصورت دارالحکومت تعمیر کریں گے کہ ملک کی دیگر ریاستوں کی راجدھانی ہی نہیں بلکہ دنیا کی بہترین راجدھانیوں کے ساتھ مقابلے میں کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود عام آدمی کی رسائی میں ہوگی۔

یہاں تک کہ سالِ رفتہ کی انتخابی منصوبہ بندی میں بھی پارٹی نے یہ وعدہ کیا کہ وہ تینوں علاقوں کو یکساں ترقی دے گی اور عدم مرکزیت کی پالیسی کے مطابق راجدھانی سبھی کو روزگار دینے کیلئے ایک آزاد علاقہ ہوگا۔کیا اس میں کہیں تین راجدھانیوں کا تذکرہ بھی تھا؟
وائی سی پی پارٹی نے اعلان کیا ہوا ہے کہ جب سبھی بڑے منصوبے بشمولِ راجدھانی کی تعمیر پر کام شروع ہوگا ریاست کے فائنانس سیکٹر میں خوب روانی ہوگی اور تعمیراتی شعبہ کو زبردست فروغ ملے گاکیونکہ ایک شعبہ میں سرعت رفتار نمو دوسرے شعبوں کی رفتار بڑھانے کا موجب بنتی ہے۔
البتہ جب امراوتی کی شان گھٹانے کے لیے یہ اقدامات ہورہے ہیں تو وائی سی پی کی قیادت کو بتادینا چاہیئے کہ وہ امراوتی میں جاری ترقی کے خلاف کیوں ہے۔
کیا ضلع، تعلق، منڈل اور پنچایت سطح کی انتظامیہ عدمِ مرکزیت اور مساوی ترقی کیلئے وجود میں نہیں آئی ہے؟اور کیا اس طرح سماجی و معاشی ترقی کے ثمرات سبھی تک یکساں طور نہیں پہنچ سکتے ہیں؟
ان انتظامی اداروں کو درکار رقومات اور اختیارات پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے ہائی کورٹ کو کرنول اور سکریٹریٹ کو وائی زیگ کی طرف لیجانا مختلف خطوں کے مابین غیر یکسانیت پیدا کرنے کی سمت میں پہلا قدم ہے۔یقینا یہ سب ریاست کی ترقی کے خاتمہ کا اشارہ اور سیاست دانوں کے پاگل پن کا مظہر ہے۔
کسی بھی ریاست کیلئے اسکی راجدھانی اسکے سر کے مانند ہوتی ہے۔فائنانشل سروسز ماڈرنائزیشن ایکٹ پر دستخط کرنے کے موقعہ پر بل کلنٹن کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم کیا ہیں،جس کی ہم خواہش کرتے ہیں۔
ستمبر 2014میں چندر بابو کی حکومت نے اسمبلی میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ نئی راجدھانی ریاست کی ہمہ جہت ترقی کی بنیاد بنے گی، مالی مسائل میں اہم کردار ادا کرے گی، ثقافت کی شان کو بحال کرے گی اور حکومت و عوام کے باہمی تعاون سے ترقی کی منزل طے کرے گی۔
اٹھائیس ہزار کسانوں نے رضاکارانہ طور پر اپنی 34 ہزار ایکڑ زرخیز اور ثمربار زمین دی ہے جبکہ انکی قربانی اور راجدھانی کی تعمیر کیلئے لاکھوں لوگوں کی جانب سے 58لاکھ اینٹوں کا نذرانہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کسی علاقائی تعصب کے بغیر راجدھانی بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
جگن حکومت نے اعلیٰ ادروں کی ان مستند رپورٹوں تک کو ایک طرف رکھ دیا ہے، جن میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ راجدھانی کے بطور امراوتی خود کفیل ہوگی۔
لیکن وائی سی پی حکومت نے راجدھانی کے علاقہ میں 120معزز اداروں کے قیام کو غیر یقینیت کا شکار کر کے ریاست کے مستقبل کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
امراوتی میں سالانہ 12 ہزار کروڑ روپے کی آمدنی حاصل کرنے کی صلاحیت ہے۔گذشتہ آٹھ سال کے دوران سی آر ڈی اے نے 12 ہزار 600 کروڑ روپے کی امداد طلب کی ہے۔
موجودہ حکومت، جس نے سی آر ڈی اے کو ختم کردیا ہے،انہوں نے راجدھانی کے کسانوں کو رجھانے کیلئے پانچ سال کی اضافی کرایہ داری کی پیشکش کی ہے۔کسانوں کا راجدھانی کیلئے اپنی محبوب زمینوں کو قربان کرنا انکی ایک بے مثال قربانی تھی لیکن جگن حکومت کا ان کسانوں اور خود ریاست کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ریاست اور عوام کے ساتھ کھلی غداری کے مترادف ہے۔

Last Updated : Feb 28, 2020, 7:33 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details