ایوان میں طلاق ثلاثہ بل منظور ہونے کے بعد ملک میں اس کا ملا جلا رد عمل سامنے آرہا ہے اس بابت جب دارالعلوم دیوبند کے علماء سے بات کی گئی تو انہوں نے صدرجمہوریہ سے مطالبہ کیا کہ وہ بل پر دستخط کرنے سے پہلے اس پر نظر ثانی کریں اور دوبارہ بحث کے لیے پارلیمنٹ میں بھیجیں۔
ایوانِ بالا میں تین طلاق بل کی منظوری کے بعد سے علماء کرام اور عمائدین ملت اس سلسلہ میں متفکر ہیں اور اس بل کو جمہوریت کا قتل قرار دے رہےہیں۔
دارالعلوم دیوبند کا صدر جمہوریہ سے مطالبہ وہیں دارالعلوم دیوبند نے عملی اقدام اٹھاتے ہوئے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کے نام خط ارسال کیا جس میں دارالعلوم دیوبند نے راجیہ سبھا کے ذریعہ پاس کیے گئے طلاقِ ثلاثہ بل کو دستور کی روح کے منافی قرار دیتے ہوئے صدر جمہوریہ سے اپیل کی ہے کہ بل پر دستخط کرنے کی بجائے اس پر نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ میں واپس بھیج دیا جائے۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی نے کہا کہ حکومت ہند کے ذریعہ پارلیمنٹ میں منظور شدہ طلاق ثلاثہ بل شریعت میں مداخلت کے مترادف ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے نزدیک یہ بل ناقابل قبول ناپسندیدہ اور حقوق نسواں کے بھی خلاف ہے۔
مولانا موصوف کے مطابق یہ قانون جمہوری نظام اور دستورمیں دی گئی مذہبی آزادی کے بھی منافی ہے، محض عدد قوت کی بنیاد پر یہ غیر مطلوبہ بل منظور کرالیا گیا ہے جبکہ ملک کی ہزاروں مسلم خواتین نے اس قانون کے خلاف دستخطی مہم کے ذریعہ صدر جمہوریہ کو میمورنڈم بھی پیش کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے مسلم خواتین کی بڑی اکثریت کی آواز کو نہیں سنا اور اپنی عددی قوت کے زور پر اس کو منظور کرالیا اس لیے ہم اس کو مسترد کرتے ہیں اور صدر جمہوریہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بل پر دستخط کرنے کی بجائے اس پر نظر ثانی کرے۔
مفتی ابو القاسم نعمانی نے کہا کہ ملی تنظیموں کو بھی اس سلسلہ میں لائحہ عمل طے کرنا چاہیے اور غور و فکر کرنا چاہیے کے جو قانون جبراً لاگو کیا جارہا ہے اس کو روکنے کی کیا آئینی اور دستوری صورت اختیار کی جاسکتی ہے۔