کے،این،پی،پی کے نیوکلر پاور پلانٹ نے پہلے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی سچائی کو افواہ قرار دیا اور دوسرے ہی روز ایک نئی پریس کانفرنس کے ذریعے سیند لگانے والے کی سراغ رسانی کی خبر سنائی اس سے کے،این،پی،پی کے ارباب حل و عقد کی معتبریت بھی سوالوں کے گھیرے میں آگئی ہے۔
جس طرح کے،این،پی،پی کو اعتراف جرم اور اعتراف شکست پر مجبور ہونا پڑا اور جس طرح سے اس سارے معاملے میں امریکہ کا نام سامنے آیا ہے وہ نہ صرف ہمارے سیکیورٹی نظام کو طشت از بام کرتا ہے بلکہ بلکہ کافی حد تک وہ امریکہ کے ساتھ ہماری لیلی مجںوں والی دعوے داری کےکھوکھلے پن پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔
سائبر کے اس حملے میں ہمارے لئے سب سے زیادہ سبق آموز یہ تھا کہ کس طرح ہمارے سیکیورٹی نظام پر اس طرح کا حملہ ہو اور ہمیں اس کی بھنک بھی نہ لگے۔جیسا کہ،کے، این ،پی، پی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 2004 میں اس کی تیاریوں کا آغاز ہوا تھا اور نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے ری ایکٹر کے کنٹرول کرنے والے کمپیوٹرز میں خطرات کی نشاندھی کی تھی اور اپنے نیٹ ورک کے ذریعے اس بات کا پتا لگایا تھا کہ یہ کس حد تک اپنا دائرہ بڑھا سکتا ہے اور اس کی حد کہاں تک ہے۔ہم ابھی تک یہ پتا لگانے میں ناکام رہے ہیں کہ چوری کی گئی معلومات کو کہاں اور کس کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس سارے معاملے کو یہ کہہ کر ختم کردیا گیا کہ ”تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ متاثرہ پی سی کا تعلق ایک ایسے صارف سے تھا جو انٹرنیٹ سے منسلک نیٹ ورک سے جڑا ہوا تھا۔اور یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جسے بہت زیادہ سنگین کہا جاسکے۔یہ سچ ہے کہ اس سے جوہری پلانٹ کا کام کاج متاثر نہیں ہوا تھا،لیکن ایک اور طرح کے جوہری ہتھیار سے اس طرح کا حملہ کیا جاسکتا ہے اسے اس طرح بھی دیکھا جانا چایئے کہیں اگلی بار یہ اور زیادہ طاقت اور قوت کے ساتھ استعمال نہ ہو۔جب براک اوبامہ نے 2009 میں اقتدار سنبھالا تو ایرانی جوہری طاقت سینٹری فیوجر نے قابو سے باہر ہونا شروع کیا یہ ایک ملک کا دوسرے ملک کے خلاف پہلا سائبر استعمال سمجھا جاتا ہے۔فریڈ کپلن نے اپنی کتاب ”ڈارک ٹیرٹری :دی سیکریٹ ہسٹری آف سائبر وار“میں اس حملے کی کچھ تفصیلات بتائی ہیں۔