اب کینیڈا کی البرٹا یونیورسٹی نے کہا ہے کہ یہ دوا نئے کورونا وائرس کو جسم کے اندر اپنی مزید نقول بنانے سے روکنے کے لئے انتہائی موثر ہے۔
’جرنل آف بائیولوجیکل کیمسٹری‘ میگزین میں شائع اسٹڈی میں اسی یونیورسٹی کے فروری کے آخر میں ہونے والی تحقیق کے نتائج کا ذکربھی کیا گیا جس میں بتایا گیا تھا کہ ریمیڈیسیور کس طرح ایک اور کورونا وائرس کے خلاف کام کرتی تھی۔
اب نئی تحقیق میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ ہم پرامید تھے کہ اسی طرح کے نتائج سارس کوو۔ 2 (نئے کورونا وائرس کا سائنسی نام) کے خلاف بھی نظر آئیں گے۔
اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کس طرح یہ دوا نئے وائرس کے خلاف کام کرتی ہے، اتنا ہی نہیں تفصیلات میں جاکر واضح کیا گیا کہ کس طرح اس نے وائرس کے جینوم کے پولیمرز کو ہدف بنایا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اگر آپ پولیمرز کو ہدف بناتے ہیں تو وائرس پھیل نہیں سکتا، تو یہ علاج کے لئے منطقی ہدف ہے۔
تحقیق کے دوران لیبارٹری میں دیکھا گیا کہ کس طرح یہ دوا وائرس کو دھوکا دیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا 'کورونا وائرس کے پولیمرز ڈھلان جیسے ہوتے ہیں اور انہیں بیوقوف بنایا جاسکتا ہے جس سے دوا کو وائرس کو ناکارہ بنانے میں مدد ملتی ہے اور وہ مزید نقول نہیں بناپاتا'۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ۔ 19 کے مریضوں پر اس دوا کے کلینیکل ٹرائلز دنیا بھر میں ہورہے ہیں اوراس دریافت سے سائنسدانوں کو مدد مل سکے گی۔
محققین کے مطابق اب تک کے کلینیکل ٹرائلز کے نتائج کو شواہد درست ثابت کرتے ہیں، مگران کا یہ بھی کہنا تھا کہ لیبارٹری کے نتائج کا اطلاق انسانوں پر نہیں کیا جاسکتا۔
اس سے قبل گزشتہ ہفتہ 'نیو انگلینڈ جنرل آف میڈیسن' میں شائع تحقیق میں اس دوا کا استعمال مریضوں کے ایک چھوٹے گروپ میں کیا گیا اور ان میں سے اکثریت کی حالت میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی، جس سے فی الحال ناقابل علاج سمجھے جانے والے مرض کے علاج کی تلاش کی امید بڑھ گئی۔
اس تحقیق میں جن مریضوں کو شامل کیا گیا تھا، ان کی حالت نازک تھی اور انہیں یہ دوا ’کمپیشنیٹ یوز‘(یعنی ایسی دوا جس سے علاج کی منظوری نہ دی گئی ہو مگر کوئی علاج نہ ہونے پر اسے استعمال کرایا جائے) ٹرائل کے طور پر استعمال کرائی گئی۔
تحقیق میں 53 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کا تعلق امریکہ، یوروپ اور برطانیہ سے تھا اور حالت خراب ہونے پر ان میں سے 50 فیصد کو وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا جبکہ 4 کو ہارٹ۔لنک بائی پاس مشین سے منسلک کیا گیا تھا۔