ایک ایسے وقت میں جب دُنیا کورونا وائرس کے ساتھ لڑنے میں مصروف ہے،جہاں ہم عدم استحاکام کی صورتحال کے شکنجے سے باہر نکلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جنوبی ایشیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے، جو وبا سے دوچار نہیں ہوگیا ہے۔ لیکن اس وقت بھی لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستانی افواج کے درمیان خونین جنگ جاری ہے۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق مارچ میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کے 411 واقعات رونما ہوئے ہیں۔ یہ تعداد گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران ہوئے واقعات سے پچاس فی صد زیادہ اور سال 2015 میں رونما ہوئے واقعات سے دو گنے ہیں۔
پانچ اپریل کو کیرن سیکٹر میں دراندازی کرنے کی کوشش کرنے والے پانچ دہشت گردوں کو مار گرایا گیا۔ اس آپریشن میں اسپیشل فورس کے پانچ جوان بھی شہید ہوگئے۔ اس کے پانچ دن بعد بھارتی فوج نے ایک ویڈیو ریلیز کیا، جس میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کے لانچ پیڈز اور گولہ بارود کے ذخائر پر بھارتی فوج کو حملے کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے دو دن بعد پاکستانی فوج نے اسی سیکٹر میں فائرنگ کرکے تین بھارتی شہریوں کو ہلاک اور سات دیگر کو زخمی کردیا۔ مرنے والوں میں ایک آٹھ سالہ بچہ بھی شامل تھا۔
اس وقت اس طرح کی صورتحال کے حوالے سے کئی سوالات پیدا ہورہے ہیں۔ کیا ایک ایسے وقت میں جب دونوں بھارت اور پاکستان ایک وسیع بحران سے دوچار ہیں، کیا اس وقت سرحدوں پر امن قائم نہیں کیا جاسکتا ہے؟ کیا اس وقت ہمیں ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے اپنی ساری قوت ایک مشترکہ دُشمن کے خلاف لڑنے میں صرف نہیں کرنی چاہیے؟ ان دونوں سوال کا جواب ’ہاں‘ ہی ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ قومی سطح کے فیصلوں میں ہمیشہ اخلاقی پہلو زیر نظر نہیں رکھے جاتے ہیں۔ دونوں ممالک کے سرکاری ترجمان کنٹرول لائن پر فائرنگ کے واقعات کا تذکرہ کرتے وقت روایتی اصطلاحوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس ضمن میں روایتی بیان یہ ہوتا ہے کہ دوسرے فریق نے ’’بلا اشتعال فائرنگ‘‘ کی اور اس کا ’’بھر پور جواب‘‘ دیا گیا۔
لیکن اصل حقیقت کچھ اور ہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزی محض ادلے کے بدلے نہیں ہوتی ہیں بلکہ ان کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول پر سیکورٹی صورتحال بڑے پیمانے پر خراب ہوجاتی ہے۔ سال 2013 تک دونوں ملکوں نے کم و بیش سال 2003 میں کئے گئے جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کی۔ لیکن سال 2013 میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے واقعات شروع ہوئے، جب لائن آف کنٹرول پر بھارتی دستے پر حملہ کیا گیا اور ایک سپاہی لائنس نائیک ہمریج کی لاش کو مسخ کیا گیا۔ اس کے بعد کنٹرول لائن پر باردوی سرنگیں بچھانے کا کام تیز کردیا گیا۔ اگست میں پونچھ میں پاکستانی بارڈر ایکشن ٹیم نے گھات لگاکر حملے میں پانچ بھارتی فوجی کو ہلاک کردیا۔
سیکورٹی صورتحال خراب ہوتے ہی کنٹرول لائن پر تشدد بپا ہوگیا۔ سرحد کے آر پار فائرنگ کے نتیجے میں صورتحال اس حد تک خراب ہوگئی کہ چودہ سال میں پہلی بار ڈائریکٹر جنرلز آف ملڑی آپریشنز نے آمنے سامنے میٹنگ کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اگرچہ دونوں جانب سے تناو کو کم کرنے پر اتفاق رائے ہوا لیکن عملی طور پر اس کا اثر بہت کم دیکھنے کو ملا اور سال 2014 میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔
میں نے سال 2013کی یہ مثال اس لئے پیش کی تاکہ بتا سکوں کہ یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ دونوں ملک سال 2003 کے جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کریں گے۔ حالانکہ جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے سے خود بخود سرحدوں پر امن قائم ہوگا۔ صورتحال میں حقیقی بہتری تب ہی آسکتی ہے جب پاکستان اپنی طرف سے دراندازی پر روک لگائے۔ اگر دراندازی جاری رہی اور کنٹرول لائن پر بھارتی فوجی شہید ہوتے رہے تو امن قائم ہوہی نہیں سکتا۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی ریاستی ڈھانچے (ڈیپ سٹیٹ) کے رویے میں کشمیر کے حوالے سے تبدیلی آجائے اور وہ اس خطے میں بھارت کی علاقائی بالادستی کے خلاف کھڑا ہونے سے باز آجائے۔ طویل عرصے سے قائم کی گئی بے نتیجہ اُمیدوں کے بجائے حقائق کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ ’اُمید‘ کوئی حکمت عملی نہیں ہوسکتی ہے۔ پاکستان کو یہ بات اب تسلیم کرلینی چاہیے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے جموں کشمیر کے حوالے سے اگست 2019 کو کئے گئے اقدامات کے نتیجے میں بھارت، پاکستان اور کشمیر کا تکون بکھر گیا ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان منظر سے ہٹ گیا ہے۔ دفعہ 370 بھارتی آئین کا حصہ تھا نہ کہ کوئی دوطرفہ مسئلہ۔ بین الاقوامی فورمز پر شکایات کو عالمی سطح پر زیادہ تعاون نہیں ملے گا۔ عالمی برادری کے ایک بڑے طبقے نے پہلے ہی بھارت کا موقف تسلیم کرلیا ہے۔
کشمیر میں کئے گئے حکومت کے اقدامات پر سولات پوچھے جاسکتے ہیں، لیکن یہ ایک اندرونی معاملہ ہے۔ اس میں پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ جموں کشمیر اور لداخ کے لوگوں کی خواہشات، شناخت متاثر ہوجانے کا خوف، اقتصادی ترقی اور نوجوانوں کی خواہشات پر پورا اترنے جیسے مسائل کو بھارت سرکار حل کرے گی۔
کرگل جنگ کے بعد پاکستان نے اس سوال پر کچھ حد تک احتساب کیا کہ کیا اس ملک کو اس خطرناک راستے پر چلنا چاہیے تھا یا نہیں۔ ایک سرکردہ پاکستانی سفیر شاہد ایم امین نے اس ضمن میں لکھا، ’’ ملک (پاکستان) کو اپنے حدود اور اپنی ترجیحات کے حوالے سے سنگدلی کے ساتھ حقیقت پسند بننا ہوگا۔ اولین ترجیح پاکستان کے وجود کو ہے، باقی سب اس کے بعد آتا ہے۔ یہاں تک کہ کشمیریوں کے ساتھ ہمارا لگاو بھی بعد میں آتا ہے۔‘‘ کیا اس وقت کورونا وائرس کے خلاف جاری جنگ میں بھی پاکستان اسی طرح کی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے گا یا نہیں، یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ میری ان باتوں سے یہ لگتا ہے کہ میں نے کنٹرول لائن پر امن بنائے رکھنے کی ساری ذمہ داری پاکستانی فوج پر ڈال دی ہے۔ لیکن سچ بھی یہی ہے۔ انڈین آرمی نے سرحدوں پر جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا ہوا ہے۔ وہ تو صرف دراندازی کے جواب میں دشمین کو سخت سزا دے رہی ہے۔ کنٹرول لائن پر تناو کم کرنے کے حوالے سے بال پاکستا ن کے پالے میں ہے۔
تاہم بھارت کو بھی بات چیت نہ کرنے کی اپنی پالیسی کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے اور اس ضمن میں پاکستان کی کسی بھی کوشش کا مثبت جواب دینا چاہیے۔ وزیر اعظم مود نے کووِڈ 19 کے حوالے سے سارک کی سطح پر اقدامات کی قیادت کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت تھی۔
دونوں جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی رکھنے کا دعویٰ کررہے ہیں، لیکن اس وقت جاری فائرنگ کے نتیجے میں سرحد کے دونوں جانب سب سے زیادہ متاثر جموں کشمیر کے عوام ہی ہورہے ہیں۔ اس وقت دونوں ممالک بھارت اور پاکستان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ موجودہ انسانی بحران میں اضافہ نہ کریں۔ تاہم اعتماد بحالی کے کسی بھی اقدام کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان بھروسے کی سطح بڑھا دی جائے۔ اعمتاد کا پل تعمیر کرنے کےلئے ضروری ہے کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا دیا جائے۔ اس ضمن میں اسحاق عظمیموف کا یہ قول رہنمائی کرسکتا ہے کہ ’’ آپ کے مفروضات آپ کی کھڑکیاں ہیں، جہاں سے آپ دنیا کو دیکھ سکتے ہیں۔ کبھی کبھار ان کھڑیوں کو کھولنا چاہیے تاکہ روشنی اندر آسکے۔‘‘