ریاست بہار کی 40 سیٹوں میں سے جن سیٹوں پر این ڈی اے کے تینوں اتحادی انتخابات میں حصہ لیں گے ان کی فہرست سے بھی بی جے پی کی مجبوریاں جھلکتی ہیں۔
بہار میں 17-17 سیٹوں کی حصہ داری قبول کرتے ہوئے بی جے پی نے اپنی جیتی ہوئی 5 نشستیں جے ڈی یو کے لیے پہلے ہی چھوڑ دی تھی۔
بھاگلپور کے پارلیمانی حلقے کو سابق رکن اسمبلی شاہنواز حسین کی امیدواری رد کر کے یہ سیٹ جے ڈی یو کو دے دی گئی۔
اسی طرح گری راج سنگھ کی نوادہ لوک سبھا سیٹ ان سے چھین کر ایل جے پی کو دے دی گئی ہے۔
والمیکی نگر، سیوان، گوپال گنج، جھنجھا پور اور گیا لوک سبھا سیٹوں پر گذشتہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی سیٹیں اپنی اتحادی جماعت جے ڈی یو کو دے دی۔
ظاہر ہے ایسا وہی کرتا ہے جسے اپنے کمزور ہونے یا عوامی حمایت کم ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اور ملک میں موجودہ سیاسی صورتحال سے ظاہر ہے کہ بی جے پی اپنے آپ کو کمزور محسوس کرنے لگی ہے۔ اسی لیے اسے اقتدار بچانے کے لیے اپنی حلیف پارٹیوں کے سامنے جھکنے کے علاوہ دوسرا کوئی چارہ نہیں ہے۔
سیاسی ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ بے جے پی کو اس کا احساس ہے کہ 2019 میں بی جے پی کے لیے 2014 والا ماحول نہیں ہے۔ اس لیے بی جے پی نے اکڑنے کے بجائے جھکنے کی پالیسی اپنائی ہے تاہم اسے اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
جن لوگوں کو پارٹی نے اس بار ٹکٹ نہیں دیا ہے وہ اس کے خلاف بغاوت بھی کر سکتے ہیں۔