اردو

urdu

ETV Bharat / bharat

مجاہد آزادی، بیگم حضرت محل کیوں فراموش؟

آزادی کی چنگاری پہلی جنگ آزادی 1857 میں ہی جل چکی تھی لیکن آزادی سنہ 1947 میں ملی۔ ملک کی آزادی میں اہم رول ادا کرنے والے جانبازوں میں ایک نام بیگم حضرت محل کا بھی ہے۔ لیکن انہیں بارہا فراموش کیا جاتا رہا ہے اور اگر یاد بھی کیا گیا تو اس طرح نہیں جس کی وہ مستحق تھیں۔

مجاہد آزادی، بیگم حضرت محل کو کیوں فراموش کیا جارہا
مجاہد آزادی، بیگم حضرت محل کو کیوں فراموش کیا جارہا

By

Published : Aug 15, 2020, 4:53 PM IST

سنہ 1857 جنگ آزادی اول ہندوستان کی آزادی کی طرف پہلا قدم تھا۔اس جنگ میں جن جانبازوں نے انگریزوں کو للکارا تھا ان میں ایک اہم نام بیگم حضرت محل کا ہے۔ جنہوں نے انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور روایت کے برخلاف خاتون خانہ سے مجاہد آزادی کی ہیرو بنیں۔لیکن آج ان کو فراموش کر دیا گیا ہے۔

مجاہد آزادی، بیگم حضرت محل کو کیوں فراموش کیا جارہا

کولکاتا میں موجود ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ بیگم حضرت محل کی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔ان کی یادگار قائم کی جائے اور اسکولوں میں بیگم حضرت محل کی شجاعت کے قصے بچوں کو سنائے جائیں بیگم حضرت محل کی ایک معمولی خاتون سے اودھ کی ملکہ بننے کی کہانی دلچسپ ہے۔وہ عام خاتون کی طرح نہیں تھیں۔وہ بھر پور صلاحیتوں کی مالک تھیں۔

8430841مجاہد آزادی، بیگم حضرت محل کو کیوں فراموش کیا جارہا

اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ سے نکاح سے قبل ان کا نام محمدی بیگم تھا۔واجد علی شاہ نے ان کو بیگم حضرت محل کا نام دیا تھا۔ جب اودھ کے آخری تاجدار واجد علی شاہ کی کلکتہ معزولی کے بعد بیگم حضرت محل نے انگریزوں کے سامنے سر نگوں ہونے سے انکار کر اعلان جنگ کیا۔ کئی محاذوں پر انگریزوں کو شکست دینے میں کامیاب بھی ہوئیں۔لیکن جیت کا یہ سلسلہ جاری نہ رکھنے کے باوجود انگریزوں کے سامنے کبھی نہیں جھکی۔

وہ خاتون خانہ کے لیے بہادری اور شجاعت کی مثال تھیں ان کی قربانیوں نے ملک کی جنگ آزادی میں اہم رول ادا کیا۔ساتھ ہی انہوں نے مسلم خواتین کی پردے میں رہنے والی خاتون خانہ کے تصور کے خلاف ایک مثال قائم کی کہ مسلم خواتین حکومت کی باگ ڈور بھی سنبھال سکتی ہیں اور میدان جنگ میں محاذ آرائی بھی کر سکتی ہیں۔لیکن ہندوستان کی اس عظیم بیٹی کا کارنامہ تاریخ کے گرد تلے مدھم ہو گئی۔ آج ان کے اہل خانہ کولکاتا میں مقیم ہیں۔واجد علی شاہ نے کولکاتا کے مٹیا برج میں لکھنؤ بنانے کی کوشش کی تھی۔کیونکہ وہ کبھی لکھنؤ کو بھلا نہیں سکے تھے۔

مرکزی کولکاتا کے رپن اسٹریٹ سے لگے پیمنٹل اسٹریٹ میں واجد علی شاہ کے خاندان کے ڈاکٹر کوکب قدر مرزا اپنے دو بیٹوں عرفان علی مرزا اور کامران علی مرزا کے ساتھ خاندانی مکان میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر کوکب قدر مرزا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ہیں۔وہ 83 برس کے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے واجد علی شاہ پر پی ایچ ڈی کی ہے۔اپنی کتاب میں انہوں واجد علی شاہ کے متعلق حقائق کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔

ای ٹی وی بھارت نے بیگم حضرت محل کے اہل خانہ سے خصوصی بات چیت کی۔ڈاکٹر کوکب قدر مرزا جو مہر قدر مرزا کے فرزند اور واجد علی شاہ کے فرزند برجیش قدر مرزا کے نبیرہ ہیں۔ان کے فرزند کامران علی مرزا نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ کس طرح حضرت محل نے روایت کے برخلاف خاتون خانہ کے حصار کو توڑتے ہوئے شجاعت و بہادری کی مثال بنی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیگم حضرت محل جس عزت و احترام کی مستحق ہیں وہ کہیں نظر نہیں آتا زیادہ تر لوگ ان کی شجاعت و بہادری کی کہانیوں سے واقف نہیں ہیں۔

حکومتی سطح پر بھی جس طرح سے انہیں یاد کیا جانا چاہیے نہیں کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کی پہلی جنگ آزادی خاتون نے اپنی زندگی کے آخری ایام نیپال کے کٹھمنڈو میں گمنامی میں گزارے اور وہیں پر ان کا مقبرہ ہے۔ بیگم حضرت محل نے کٹھمنڈو میں ایک مسجد بھی تعمیر کرائی تھی اس مسجد کے احاطے میں ہی ان کی قبر ہے۔ انہوں نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ بیگم حضرت محل کے قبر پر ایک خوبصورت مقبرہ بنے ساتھ ہی اس زیارت کی عام اجازت ہو۔کیونکہ مسجد کے ماتحت ہونے کی وجہ سے عام لوگوں کو ان کی قبر کی زیارت میں مشکلات کا سامنا ہے۔

مزید پڑھیں:

بھارتی نژاد کملا ہیرس کو بھارت نے فراموش کیوں کردیا ہے؟


کامران علی مرزا کی بیگم نزہت زہرا جو سریندر ناتھ کالج میں شعبہ اردو کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ بیگم حضرت محل جن کا ملک کی آزادی میں اہم رول رہا ہے۔جنہوں نے مسلم خواتین کی پردے میں رہنے والی اور امور خانہ کی قیدی والی تصور کو توڑا اور یہ ثابت کیا کہ مسلم خاتون جنگ کے محاذ پر قیادت بھی کر سکتی ہیں اور امور سلطنت بھی اچھی طرح چلا سکتی ہیں لیکن ملک کی اس بہادر بیٹی کو فراموش کر دیا گیا۔

ہم چاہتے ہیں کہ بیگم حضرت محل کی کہانی عام کی جائے۔جب بھی ملک کی آزادی کا جشن منایا جائے خاس طور پر تو بیگم حضرت محل کا بھی ذکر ہو اور ان پر بنائی ہوئی فلم ڈاکیومینٹری تمام اسکولوں میں دکھائی جائے خصوصی طور پر لڑکیوں کو تاکہ ان کو یہ تقویت ملے کہ لڑکیاں کسی کم نہیں ہوتی ہیں اور بیگم حضرت محل ان کے لئے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہیں۔اس کے ساتھ ہی بیگم حضرت محل کے نام پر ایک تعلیمی ادارہ بھی قائم کیا جائے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details