طلبہ و طالبات نے مرکزی و ریاستی حکومت کے ساتھ ہی شیخ الجامیعہ طارق منصور اور رجسٹرار عبدالحمید اور اتر پردیش پولیس کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔
طلبہ نے موجودہ وائس چانسلر اور رجسٹرار کو 'سابق وائس چانسلر اور رجسٹرار' بھی کہا اور دونوں کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے 15 تاریخ کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران جامیعہ کے طلبہ سے یک جہپتی کے لئے نکالے گئے جلوس کے دوران کیمپس میں پولیس کے جانب سے کئے گئے تشدد کے بعد سے ہی وی سی اور رجسٹرار کے خلاف طلبہ میں کافی غصہ ہے۔
رجسٹرار کے بیان کے مطابق پولیس رجسٹرار کے کہنے پر ہی یونیورسیٹی کے کیمپس میں گھس کر طلبہ پر تشدد کیا تھا اور گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی اور مبینہ طور پر ہاسٹل کے کمروں میں آگ بھی لگائی۔
آج کے مظاہرے کے مدنظر علی گڑھ انتظامیہ نے ایک بار پھر باب سید اور یونیورسٹی سرکل کو چھاؤنی میں تبدیل کردیا ہے آر اے ایف، پی ایس سی اور پولیس کے ساتھ خاتون پولیس کو بھی کو بھی بڑی تعداد میں تعینات کیا ہے۔
دوسری جانب اس مظاہرے کی اہم بات یہ بھی رہی کہ یونیورسٹی کے دروازہ باب سید کے قریب ایک درخت پر ملک میں سی اے اے اور این آر سی کےخلاف مظاہرے میں ہلاک ہوئے لوگوں کے نام لکھ کر گلاب کے پھولوں کے ساتھ ان تمام افراد کو خراج تحسین بھی پیش کی گئی ہے۔
اے ایم یو طلبہ یونین کے سابق صدر سلمان امتیاز نے بتایا کہ آج یکجہتی مارچ جامعہ اور اے ایم یو کے طلبہ کے لیے نکالا گیا۔ اور یہ طلبہ کی تعداد بتاتی ہے کہ یہ حکومت جس طریقے سے ہمارے اوپر سی اے اے کو مسلط کرنا چاہتی ہے، ہم اس کے خلاف ہیں اور ہماری لڑائی جاری رہیں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج بل کو واپس لئے جانے اور وائس چانسلر اور رجسٹرار کے استعفی تک جاری رہےگی، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ استعفیٰ نہیں دینے کی صورت میں اے ایم یو میں کوئی بھی تعلیمی سرگرمی انجام نہیں دی جائے گی۔
سلمان امتیاز نے بتایا کہ اے ایم یو طلبہ یونین 19 صفحات کی ایک دستاویز بھی جاری کرے گی جس میں آٹھ تاریخ سے 15 دسمبر تک یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے کی گئی تمام کارناموں کی سچائی موجود ہوگی ۔