علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مشہور اسلامی اسکالر، مصنف اور معروف سیرت نگار پروفیسر یاسین مظہر صدیقی کا 15 ستمبر 2020 بعمر 76 برس انتقال ہوگیا۔
پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کے سابق چیئرمین تھے۔ کینسر کے مرض کی وجہ سے طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔
ویڈیو : علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سابق صدر پروفیسرعبید اللہ فہد فلاحی کے تاثرات پروفیسر صدیقی نے 40 سے زائد کتابیں اور 300 تحقیقی مضامین اردو اور عربی زبان میں لکھے۔ آپ کا خاص موضوع سیرت رسول اکرمﷺ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی تعلیمات پر ان کی تحریروں کو خوب پذیرائی ملی۔ انہوں نے نامور ادبی جریدہ 'نقوش' میں بڑے پیمانے پر تحریر کیا اور بین الاقوامی نقوش ایوارڈ، سیرت رسول ایوارڈ اور سیرت نگاری ایوارڈ حاصل کیا۔
ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی کی کتاب 'مصادر سیرت' پروفیسر صدیقی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق طالب علم نے بحیثیت ریڈر شعبہ اسلامیہ کے شعبہ میں شامل ہونے سے قبل سولہ برس شعبہ تاریخ میں کام کیا اور بعد میں وہ اس شعبہ کے پروفیسر اور چیئرمین بنے۔ انہوں نے آفتاب ہال کے پرووسٹ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔
ایشیا ٹائمز سے وابستہ زبیر سعیدی العمری نے لکھا ہے کہ 'پروفیسر صدیقی نے مولانا ابو الحسن علی ندوی اور مولانا محمد رابع حسنی ندوی جیسی شخصیات سے کسبِ فیض کیا تھا اور تمام تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلما، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے حاصل کی، لیکن علی گڑھ مسلم علی گڑھ یونیورسٹی آپ کی پہچان بن گئی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو یونیورسٹی کے ذیلی ادارہ 'شاہ ولی اللّٰہ ریسرچ سیل' کا سربراہ بنا دیا گیا اور تادم حیات اسی میں مصروفِ عمل رہے۔ آپ کو شاہ ولی اللّٰہ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔
ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی کی تاریخ تہذیب اسلامی پر کتاب انھوں نے لکھا ہے کہ 'قاضی سلیمان منصور پوری، علامہ شبلی نعمانی اور علامہ سید سلیمان ندوی کے بعد ڈاکٹر یٰسین مظہر کے قلم نے سیرت کے بہت سے پوشیدہ پہلوؤں کو اُجاگر کیا ہے'۔
شاہ اجمل فاروق ندوی نے لکھا ہے کہ 'یٰسین مظہر صدیقی اس دور کے نمایاں اور سب سے بڑے سیرت نگار تھے۔ سیرت کے مختلف گوشوں پر ان کا جو کام ہے، اس کا کوئی ثانی نہیں۔ انھوں نے سیرت کو ہر اینگل سے دیکھا، پرکھا اور تحقیقی نوعیت کا کام کیا ہے۔ سیرت پر ان کی جوگہری نظر تھی، وہ لاجواب ہے۔ ان کی سیرت نگاری کی سے سے بڑی خوبی یہ ہے ان کا ہر کام بالکل نیا ہے اور سیرت کے نئے گوشوں پر کام کرنے کی ضرورت بھی محسوس کرتے تھے جس کا وہ اکثر اظہار بھی کرتے تھے۔ گزشتہ کئی برسوں سے وہ سیرت کے معاشی اور سماجی پہلوؤں پر کام کرنے پر زور دے رہے تھے'۔
ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی کی انگریزی کتاب معروف عالم دین اور محقق ڈاكٹر محمد اكرم ندوى نے لکھا ہے کہ 'پروفيسر صديقى اس عہد كے مايہ ناز محققين ميں تهے، خاص طور سے سيرت، مغازى،عہد نبوى اور قرون اولى كى تاريخ كے علم ميں ان كا كوئى ہمسر نہيں تها، اپنے موضوع پر اس وقت ان كى حيثيت ايك مرجع كى تهى، اسى طرح فكر ولى الله كى تشريح ميں ان كو غير معمولى ملكه تها، اور شايد يه كہنا بجا ہو: مستند ہے ميرا فرمايا ہوا'۔
ڈاكٹر محمد اكرم ندوى نے مزید لکھا ہے کہ 'اردو ميں ان كى وقيع كتابوں ميں ہيں: عہد بنوی کا تمدن، رسول اکرم ﷺ اور خواتین، عہد نبوى كى ابتدائى مہميبں، نبوى غزوات وسرايا كى اقتصادى اہميت، عہد نبوى ميں تنظيم رياست وحكومت، حضرت شاه ولى الله دہلوى شخصيت وحكمت كا ايك تعارف، بنو ہاشم اور بنو اميه كے معاشرتى تعلقات، اندلس ميں علوم قراءت كا ارتقاء، شاه ولى الله كا فلسفۂ سيرت، غزوات نبوى كى اقتصادى جہات، تاريخ اسلامى پر فكرى يورش، رسول اكرم صلى الله عليه وسلم كى رضاعى مائيں، وغيره'۔
ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی کی کتاب امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی نے کہا ہے کہ 'پروفیسر موصوف کی وفات سے سیرت نگاری کا ایک نہایت روشن باب مکمل ہوگیا۔ تاریخ نگاری کے جدید اسلوب اور طریقوں کا جس خوبصورتی سے انہوں نے سیرت نگاری کے لئے استعمال کیا، اور جس طرح حیات طیبہ اور نبوی معاشرے کے خد و خال کو جدید اسلوب میں اجاگر کیا، اُس کے نتیجے میں دور حاضر میں اسوہ حسنہ سے رہنمائی کا حصول آسان ہوگیا۔ اس حوالہ سے ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کے ساتھ پروفیسر موصوف، ہمارے عہد کے ممتاز ترین سیرت نگار تھے'۔
ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی کی انگریزی کتاب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے سابق صدر پروفیسر عبید اللہ فہد فلاحی نے ای ٹی وی بھارت اردو کے محمد رحمن پاشا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ' سرسید نے سیرت نگاری کے میدان میں جو جھنڈے گاڑے، اس کی تکمیل علامہ شبلی نعمانی نے اپنی کتاب 'سیرت النبی ﷺ' کے ذریعے کی۔ ان دنوں سیرت نگاروں کے بعد تیسرے نام پروفیسر محمد یاسین مظہر صدیقی کا آتا ہے۔ ان تینوں سیرت نگاوں کو ملا دیا جائے تو سیرت نگای کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے'۔
ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی کی مرتب کردہ کتاب اے ایم یو کے وائس چانسلر پروفیسر طارق نے پروفیسر صدیقی کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور ان کے انتقال کو علمی دنیا کے لیے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔
پروفیسر نثار احمد خان، ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز، پروفیسر محمد اسماعیل چیئرمین شعبہ اسلامیات اور سابق صدر شعبہ اسلامیات پروفیسرعبید اللہ فہد فلاحی نے ان کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔