کسان تنظیموں کی جانب سے آج دی گئی بھارت بند کی کال کو 10 ٹریڈ یونین اور 11 حزب اختلاف کی جماعتیں حمایت دی رہی ہیں، حالانکہ مرچنٹ کی تنظیم 'کیٹ' نے اس بند سے علیحدگی اختیار کرتے اس میں شامل نہیں ہونے کا فیصلہ کیا ہے، آج کے اس بند سے عام خدمات متاثر ہوں گی۔
کسانوں کی جانب سے 4 دسمبر کو ہی بھارت بند کا اعلان کر دیا گیا تھا، حالانکہ 9 دسمبر کو کسانوں اور حکومت کے مابین چھٹے دور کے مذاکرات ہونے ہیں، لیکن اس سے قبل کسان بھارت بند کے ذریعہ مرکزی حکومت کو ایک بڑا پیغام دینا چاہتے ہیں۔
کسان رہنماؤں کے مطابق صبح 11 بجے سے سہ پہر 3 بجے تک 'چکا جام' اور مظاہرے کیے جائیں گے، اس دوران اہم شاہراہ پر ٹریفک نظام متاثر ہو جائے گا۔
مہاراشٹر میں بند سے متعلق ریاستی ٹرک، ٹیمپو، ٹینکرز اور واٹک یونین کے سکریٹری دیا ناٹکر نے کہا ہے کہ 'دودھ، سبزیوں اور پھلوں جیسے ضروری سامان کی آمدورفت کو اس بند سے الگ رکھا گیا ہے۔
سینئر ٹیکسی یونین کے رہنما اے ایل کاؤدروز نے کہا کہ ٹیکسیاں میٹرو سیٹیز میں چلیں گی ان کا کہنا تھا کہ 'کیونکہ کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن نے پہلے ہی اس سیکٹر کو بری طرح متاثر کر دیا ہے۔'
وہیں ریلوے یونین کے اے آئی آر ایف اور این ایف آئی آر نے 'بھارت بند' کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیر کے روز ریلوے کی دو سب سے بڑی ملازم تنظیموں نے 8 دسمبر کو نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرتے 'بھارت بند' کی حمایت کی ہے۔
آل انڈیا ریلوے مین کی فیڈریشن (اے آئی آر ایف) اور نیشنل فیڈریشن آف انڈین ریلوے مین (این ایف آئی آر) نے اپنے اراکین سے 8 دسمبر کو دھرنا مظاہرہ کر کے مظاہرین کاشتکاروں سے اظہار یکجہتی کرنے کو کہا ہے۔
منگل کے روز دس مرکزی ٹریڈ یونینوں کے مشترکہ فورم نے کسان تنظیموں کے 'بھارت بند' کے مطالبے کی اخلاقی طور پر حمایت کی ہے۔
یہ یونینیں ہڑتال نہیں کریں گی اور کام سے دور نہیں رہیں گی بلکہ کسانوں کی حمایت کریں گی، ڈیوٹی پر ہوتے ہوئے وہ کام کے دوران کالی پٹی لگائیں گے، کام کے اوقات کے بعد یا اس سے پہلے احتجاج کریں گے اور ریلیاں نکالیں گے۔
کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ تینوں قوانین کی واپسی چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی 23 فصلوں پر دی جانے والی ایم ایس پی کی بحالی بھی کی جائے، مودی حکومت نے احتجاج کرنے والے کسانوں کو قانون میں ترمیم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ قانون واپس لینا ممکن نہیں ہے۔ لیکن کسان اپنے مطالبات پر قائم ہے۔
اس سے قبل کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے 2015 میں مودی حکومت نے زمین کے حصول سے متعلق ترمیم کو واپس لے لیا تھا، کسان دوبارہ اسی کی توقع کر رہے ہیں۔