ممبئی: شیوسینا کے ترجمان آنند دوبے نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بالا صاحب ہمیشہ ہندوتوا کو لیکر آگے بڑھے، اس کا یہ بالکل مطلب نہیں تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف رہے۔ وہ خلاف تھے اُن لوگوں کے جو بھارت میں رہ کر پاکستانیوں کی حمایت کے نعرے لگاتے تھے۔ شیوسینا کل بھی اُن کے خلاف تھی اور آج بھی اُن کے خلاف ہے اور آگے بھی رہےگی۔ یہ شیوسینا بالا صاحب ٹھاکرے کی شیوسینا ہے، جو آج بھی اپنے اُسی موقف پر قائم ہے اور قائم رہےگی۔ بالا صاحب اگر مسلمانوں کے خلاف ہوتے تو آج مسلمانوں کے علاقوں میں شیوسینا کی شاخیں قائم نہیں ہوتی۔
ممبئی کے مسلم اکثریتی علاقے جن میں ڈونگری، پکھموڑیا اسٹریٹ، ٹیمکر اسٹریٹ یہ علاقے مسلم گنجان آبادی والے علاقے ہیں۔ ان علاقوں کی دوسری شناخت ہمیشہ سے افلاس، غربت اور جرائم پیشہ افراد کا مسکن کی رہی ہے۔ یہ علاقے ہمیشہ سے کانگریس، این سے پی اور سماجوادی پارٹی کے قریب رہی لیکِن بنیادی سہولیات سے یہ علاقے آج بھی محروم ہیں۔ آزادی کے بعد نصف صدی گزر جانے کے بعد بھی ان علاقوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں آج بھی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ ان میں سب سے اہم تعلیمی ادارے اور طبی مراکز ہیں جبکہ دوسرے علاقوں کی حالات اس کے برعکس ہے۔ ایسے علاقے جہاں کانگریس این سی پی کا وجود نہیں ہے، اُن علاقوں میں عوام بنیادی سہولیات سے آراستہ ہے۔ یہاں کھیل کود کے لئے میدان، جمخانہ، طبی اور تعلیمی مراکز کو سب سے زیادہ فوقیت دی گئی ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسلم علاقوں میں ترقیاتی کاموں اور بنیادی سہولیات کو فروغ دینے کے لئے مسلمانوں میں اُدھو ٹھاکرے کی شیوسینا کو لیکر بیداری پیدا ہوئی ہے۔ اب لوگ کثیر تعداد میں شیوسینا کی جانب گامزن ہو رہے ہیں۔ اس کے پیچھے کی سب سے بڑی وجہ یہ مانی جاتی ہے کہ شیوسینا کا مہا وکاس آگھاڈی کے ساتھ اتحاد، جسکی بدولت مسلمانوں نے شیوسینا کا دامن تھام لیا۔