ہانگژو: چین میں منعقدہ ایشین گیمز میں حصہ لینے والے بھارتی دستے نے حسب وعدہ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجموعی طور 107 تمغے جیتے۔ جن میں 28 طلائی تمغے شامل ہیں۔ ایونٹ کی تاریخ میں یوں بھارت نے ایک سنگ میل عبور کیا۔ اس شاندار کارکردگی نے بھارت کو مجموعی طور پر تمغوں کی اسٹینڈنگ میں ایک باوقار چوتھے مقام پر پہنچا دیا، صرف چین، جاپان اور جنوبی کوریا ہم سے آگے ہیں۔ یہ ایک ناقابل یقین کارنامہ تھا، جس نے 2018 میں جکارتہ، انڈونیشیا میں 70 تمغوں کی ہماری سابقہ کامیابی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ فتح بھارتی کھلاڑیوں کی غیر متزلزل لگن اور محنت کو واضح کرتی ہے، جو مشکل حالات میں بھی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ایشیائی کھیلوں میں بھارت کا سفر 1951 میں افتتاحی ایونٹ میں دوسری پوزیشن اور 1962 کے جکارتہ گیمز میں تیسری پوزیشن کے ساتھ شروع ہوا۔ 5 -11 کی معمولی درجہ بندی کے ساتھ شروع کرتے ہوئے، بھارتی ٹیم کے شاندار عروج نے سو سے زیادہ تمغے حاصل کیے، جس نے اپنے غیر معمولی شو کے لیے ملک بھر میں پذیرائی اور پہچان حاصل کی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارتی تیر اندازوں جیوتی اور اوجس پراوین کی شاندار کارکردگی کی بدولت ہردفعہ کھلاڑیوں نے تین گولڈ میڈل حاصل کیے، جو انکی غیر معمولی صلاحیتوں اور لگن کا مظہر ہے۔
مزید برآں، ساتھوک سائراج اور چراغ شیٹی نے بیڈمنٹن میں طلائی تمغہ جیت کر تاریخ رقم کی۔ بھارتی ٹیم کی اجتماعی جارحیت اور تیر اندازی، کبڈی، کرکٹ، بیڈمنٹن، شوٹنگ، ایتھلیٹکس اور دیگر متعدد شعبوں میں مہارت نے تمغوں کی تعداد میں اس اضافے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ یہ بھی اجاگر کرنا ضروری ہے کہ یہ کامیابیاں ایک مربوط ادارہ جاتی امداد کے بغیر حاصل ہوئی ہے، اور ہمارے کھلاڑیوں نے قابل ذکر خود انحصاری اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔
چین نے پچھلی بار جکارتہ میں حیران کن 289 تمغوں کے ساتھ، جس میں 132 طلائی تمغے شامل تھے، ہانگژو میں 383 تمغوں کے ساتھ اپنی برتری کو برقرار رکھا جن میں سے 201 سونے کے تمغے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو، بھارت کی ریاستوں میں سے ایک بہار کی آبادی تقریباً 13 کروڑ ہے۔ اس کے مقابلے میں 12 کروڑ آبادی والے جاپان نے 52 طلائی تمغوں سمیت کل 188 تمغے حاصل کیے۔ جب کہ ریاست اڈیشہ کی آبادی تقریباً پانچ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے، جنوبی کوریا جس کی آبادی اتنی ہی ہے، نے 42 طلائی تمغوں سمیت 190 تمغے اپنے نام کیے ہیں۔ بھارت، جس کی آبادی 140 کروڑ سے زیادہ ہے، اسے کھیلوں کی عمدہ کارکردگی کے راستے پر اب بھی اہم مشکل مراحل کا سامنا ہے۔
کھیلوں کی دنیا کے طاقتور پاور ہاؤس چین نے 1982 کی ایشیائی کھیلوں کے بعد سے مسلسل اپنا دبدبہ برقرار رکھا ہے، جن کی میزبانی دوسری بار بھارت نے کی تھی۔ چین کی بے مثال کامیابی کا سہرا ملک بھر میں متعدد جمنازیم قائم کرنے اور انتہائی کم عمری سے ہی غیر معمولی طور باصلاحیت نوجوانوں کی شناخت کرنے اور بعد میں انکی مخصوص پیرائے میں پرورش کرنے اور صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے ساتھ منسوب کیا جا سکتا ہے۔ کھیلوں کے معیار کو بلند کرنے اور تمغوں کی تعداد میں سرفہرست رہنے میں ان کی یہ ٹھوس کاوشیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔