اسدالدین اویسی نے حجاب فیصلہ پر سلسلہ وار ٹوئٹ کرکے اپنے ردعمل کا اظہارکیا۔ انہوں نے اپنے ردعمل میں 15 نکات کو رکھا ہے۔
- حجاب سے متعلق کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے میں متفق نہیں ہوں۔ فیصلے سے اختلاف کرنا میرا حق ہے اور مجھے امید ہے کہ درخواست گزار سپریم کورٹ سے رجوع ہوں گے۔
- میں اس بات کی بھی امید کرتا ہوں کہ نہ صرف مسلم پرسنل لا بورڈ بلکہ بلکہ دیگر مذہبی تنظیمیں بھی اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گی کیونکہ اس فیصلہ سے مذہبی و ثقافتی آزادی اور اظہار خیال کی آزادی جیسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
- آئین کے مطابق سوچ، اظہار، عقیدہ، ایمان اور عبادت کی آزادی ہے۔ اگر یہ میرا عقیدہ اور ایمان ہے کہ سر ڈھانپنا ضروری ہے تو مجھے ایسا کرنے کا حق حاصل ہے جیسے میں مناسب سمجھتا ہوں۔ ایک متقی مسلمان کے لیے حجاب کرنا، ایک عبادت ہے۔
- یہ ضروری مذہبی عمل ہے۔ دیندار کے لیے ہر دینی عمل ضروری ہے جب کہ مذہب سے بیزار شخص کے لیے کسی پر بھی عمل کرنا ضروری نہیں۔ ایک متقی ہندو برہمن کے لیے جنیو ضروری ہے لیکن ایک غیربرہمن کے لیے ایسا کرنا ضروری نہیں۔ یہ مضحکہ خیز ہے کہ جج کی جانب سے اس طرح کا فیصلہ دیا گیا۔
- یہاں تک کہ ایک مذہب کے ماننے والے دوسرے فرد کےلیے فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ معاملہ اللہ اور بندے کے درمیان کا ہے۔ ریاست کو مذہبی حقوق میں مداخلت کی اجازت صرف اسی صورت میں دی جانی چاہیے جب اس سے دوسروں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ سر کے اسکارف سے کسی کو کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا۔
-
ہیڈ اسکارف پر پابندی یقینی طور پر دیندار مسلم خواتین اور ان کے خاندانوں کے لیے تکلیف دہ ہے کیونکہ اس فیصلہ سے تعلیم حاصل کرنے میں رکاوٹ ہوگی۔
- یہ عذر پیش کیا جارہا ہے کہ یونیفارم، یکسانیت کو یقینی بنائے گا، کیسے؟ کیا بچوں کو معلوم نہیں ہوگا کہ کون امیر ہے اور کون غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے؟ کیا نام سے ذات کے پس منظر کی نشاندہی نہیں ہوتی؟
-
اساتذہ کو امتیازی سلوک سے روکنے کے لیے یونیفارم کس طرح کام کرتا ہے؟ عالمی سطح پر یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ اسکول، پولیس اور فوج کی وردی کے استعمال کے ساتھ ساتھ ذاتی شخصیت ظاہر کرنے کی رعایت دی جاتی ہے۔
-
جب آئرلینڈ کی حکومت نے پولیس یونیفارم کے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے حجاب اور سکھوں کو پگڑی استعمال کرنے کی اجازت دی تو مودی حکومت نے اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ اندرون و بیرون ملک دوہرا معیار کیوں؟ یونیفارم کے رنگوں کے حجاب اور پگڑیاں پہننے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
-
ان تمام کا کیا نتیجہ ہے؟ سب سے پہلے حکومت نے ایک مسئلہ کو پیدا کیا جبکہ اس کا کوئی وجود نہیں تھا، طلبا حجاب، چوڑیاں وغیرہ پہن کر اسکول جا رہے تھے، لیکن کچھ طلبا کو تشدد پر اکسایا گیا اور زعفرانی پگڑیوں کے ساتھ اسکول جانے کو کہا گیا۔
-
کیا زعفرانی شال "ضروری" ہے؟ یا حجاب کے خلاف یہ صرف ایک ردعمل ہے؟ تیسرا، حکومت کی جانب سے جاری جی او اور ہائی کورٹ کے حکم سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ہم نے میڈیا، پولیس اہلکار اور انتظامیہ کو حجاب پہنی طالبات اور اساتذہ کو ہراساں کرتے دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ طالبات کے امتحان لکھنے پر بھی پابندی عائد کی گئی۔ یہ شہری حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی ہے۔
-
آخر میں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک خاص مذہب کو نشانہ بنایا گیا اور مذہبی عمل پر پابندی لگادی گئی۔ آرٹیکل 15، مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے روکتا ہے۔ کیا اس طرح کے فیصلہ سے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی نہیں ہوتی؟ مختصراً ہائی کورٹ کے حکم نے بچوں کو تعلیم اور اللہ کے احکامات میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
-
مسلمانوں کے لیے اللہ کا حکم ہے کہ تعلیم حاصل کریں جب کہ اس نے صلواۃ، حجاب، روزہ وغیرہ پر بھی عمل کرنے کی سختی سے تاکید کی ہے۔ اب حکومت طالبات کو انتخاب کرنے پر مجبور کررہی ہے۔ اب تک عدلیہ کی جانب سے مساجد، داڑھی رکھنے اور حجاب کو غیرضروری قرار دیا گیا ہے۔ عقائد کے آزادانہ اظہار کے لیے اب کیا بچا ہے؟
-
مجھے امید ہے کہ یہ فیصلہ حجاب پہننے والی خواتین کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ جب کہ بینکوں، ہسپتالوں، پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ میں حجاب پہننے والی خواتین کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کیا جارہا ہے، جس سے بالآخر مایوسی ہوتی ہے۔
-
کوئی فرد مزید تفصیلی جواب دے سکتا ہے جب کہ مکمل فیصلہ دستیاب ہو۔ فی الحال، ان خیالات کا اظہار عدالت میں دیے گئے زبانی حکم کے مطابق کیا گیا ہے۔