یو پی اے ٹی ایس نے تبدیل مذہب کے مبینہ الزام میں دو مبلغ مولانا جہانگیر قاسمی اور محمد عمر گوتم کو گرفتار کیا۔ ان پر تقریباً ایک ہزار مرد وخواتین اور بچوں کو جبراً مذہب تبدیل کرانے کا الزام ہے۔
اے ڈی جی لا اینڈ آرڈر پرشانت کمار نے بتایا تھا کہ اس میں آئی ایس آئی فنڈنگ کرتی ہے، ساتھ ہی بیرون ممالک سے فنڈز مل رہا ہے۔ اس معاملے میں دارالحکومت لکھنؤ کے ملیح آباد واقع 'الحسن ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن' کا نام سامنے آیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ محمد عمر گوتم یہاں کے نائب صدر ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران 'الحسن ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن' کے سیکرٹری مولانا نجیب الحسن نے بتایا کہ 'ہمارے یہاں کوئی بھی چھاپے ماری نہیں ہوئی، سب بے بنیاد الزام لگایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا پورے معاملے کو بڑھا چڑھا کر دکھا رہا ہے جب کہ ابھی تک کوئی بھی جانچ ایجنسی نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔'
مولانا نجیب الحسن نے بتایا کہ 'ہمارے یہاں تعلیم کے فروغ کے لئے کام ہو رہا ہے۔ غریب بچوں کو تعلیم دینے میں ہر ممکن مدد دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم لوگ حکومت کی گائڈ لائن کے مطابق ہی سارے کام کرتے ہیں۔ وقت پر ہم آڈیٹ بھی کراتے ہیں اور بیرون ممالک سے فنڈز کی بات بالکل غلط ہے۔'
یہ بھی پڑھیں: عمرگوتم پرلگائے گئے الزامات بے بنیاد
Maulana Umar Gautam: عمر گوتم کی گرفتاری پر علماء کا ردعمل
اس کے برعکس اے ڈی جی کے مطابق ملیح آباد کے رحمان کھیڑا میں چل رہے الحسن ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر فاؤنڈیشن میں دسویں درجے تک سی بی ایس سی بورڈ کے اس اسکول میں 500 بچوں کو مفت میں تعلیم دینے کا بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے۔
اقبال احمد ندوی تنظیم کے صدر، عمر نائب صدر، نجیب الحسن سیکرٹری، عبدالحئی، محب عالم، آمنہ رضوان اور مشیر احمد ممبر ہیں۔ یو پی اے ٹی ایس کو سبھی ممبران کی تلاش ہے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پورے معاملے پر نگاہ بنائے ہوئے ہیں، انہوں نے اعلیٰ افسران کو ہدایت دی ہے کہ کوئی بھی مجرم بچنا نہیں چاہئے۔ وزیر اعلیٰ نے پہلے ہی دونوں مبلغ پر سخت کارروائی کا حکم دیتے ہوئے گینگسٹر اور این ایس اے لگانے، ساتھ ہی جائداد ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔
مولانا محمد عمر گوتم کون ہیں؟
اترپردیش اے ٹی ایس نے جبراً مبینہ مذہب تبدیل کرانے کے الزام میں محمد عمر گوتم اور مفتی جہانگیر کو گزشتہ دنوں گرفتار کیا، ان پر بیرون ممالک سے فنڈنگ حاصل کرنے کے بھی سنگین الزامات لگائے گئے ہیں، اس کے بعد ان کے رابطے میں آنے والے لوگوں سے شکوک کی بنیاد پر پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔