حیدرآباد: لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ، اسد الدین اویسی نے آسام کے 1.5 لاکھ مسلمانوں کی قسمت پر سوال اٹھایا، جنہیں مبینہ طور پر آسام میں شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کی فہرست سے باہر رکھا گیا تھا۔ ریاست میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) نافذ کردیا گیا ہے۔
جمعہ کو حیدرآباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بی جے پی زیرقیادت مرکز کی جانب سے ملک بھر میں سی اے اے کو نافذ کرنے کے چند دن بعد اسد الدین اویسی نے کہا ہےکہ "آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے کہا کہ ریاست میں 12 لاکھ ہندو این آر سی میں درج نہیں ہیں جنہیں سی اے اے کے تحت ہندوستانی شہریت دی جائے گی لیکن 1.5 لاکھ مسلمانوں کا کیا ہوگا''؟
اویسی نے کہا کہ این آر سی کی فہرست سے باہر رہ جانے والے مسلمانوں سے کہا جائے گا کہ وہ 1962 یا یہاں تک کہ 1951 سے غیر ملکیوں کے ٹرنینل میں اپنے نسب کا پتہ لگا کر اپنی نسل کو ثابت کریں۔ اویسی نے کہا ہےکہ "ان سے پوچھا جائے گا کہ وہ 1962 یا 1951 میں آئے تھے۔ ان سے اپنے دادا کے دستاویزات اور پیدائشی سرٹیفکیٹ دکھانے کو کہا جائے گا۔ ان 1.5 لاکھ مسلمانوں سے کہا جائے گا کہ وہ غیر ملکیوں کے ٹریبونل میں اپنی شہریت کو ثابت کریں"۔
اویسی نے متنبہ کیا کہ اگرچہ بی جے پی نے ہندوستانی مسلمانوں میں خوف کو دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ سی اے اے سے متاثر نہیں ہوں گے، اس طرح کی 'چیزیں' مقررہ وقت پر ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ "بی جے پی کہہ رہی ہے کہ فوری طور پر کچھ نہیں ہونے والا ہے۔ میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ چیزوں کو سامنے آنے میں وقت لگتا ہے"۔