ندوۃ العلما نے دینی تعلیم کے ساتھ قانون کے کورس کا آغاز کیا، جانیں طلبا میں کیا تبدیلی آئی - قانون کے کورس کا آغاز کیا
Nadwatul Ulama started the law course with religious education ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے طالب علم طلحہ عزیز نے بتایا کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء ریاست کا پہلا ایسا مدرسہ ہے جو بھارتی قوانین پر مشتمل کورس متعارف کرایا اور جس میں طلبا تیزی سے دلچسپی لے رہے ہیں
Published : Jan 21, 2024, 9:01 PM IST
لکھنو: لکھنؤ کے معروف دینی ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں کچھ ماہ قبل مختصر دورانیہ کا بھارتی قانون اور ائین پر مشتمل ایک کورس کا افتتاح کیا گیا تھا جو اب اخری مرحلے میں ہے اس کورس میں درجنوں بچوں نے شرکت کی اور مختلف یونیورسٹیز اور ماہر وکلاء نے انہیں تعلیم دی ہے ای ٹی وی بھارت نے مدرسے میں اس کورس کے متعلق بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ بھارتی قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا تبدیلی ائی ہے کیا ریاست کے سبھی مدارس میں بنیادی قوانین پڑھانے کی ضرورت ہے اور اس کے کیا نتائج سامنے ہوسکتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے طالب علم طلحہ عزیز نے بتایا کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء ریاست کا پہلا ایسا مدرسہ ہے جو بھارتی قوانین پر مشتمل کورس متعارف کرایا اور جس میں طلبا تیزی سے دلچسپی لے رہے ہیں عزیز نے بتایا کہ بھارتی قانون پڑھنے سے قبل جس طریقے سے ہم سوچتے تھے اس میں بڑی تبدیلیاں ائی ہیں پہلے ہم ان باتوں کو بھی جرم سمجھتے تھے جو قانون کی نظر میں جرم نہیں ہے لیکن قانون پڑھنے کے بعد ہمیں عملی زندگی میں کئی اسانیاں آئیں گی کوئی بھی شخص بلا وجہ استحصال نہیں کر سکتا ہے پولیس اسٹیشن میں ایف ائی ار درج کرانے کے طریقے کار کیا جرم ہے اور کیا جرم نہیں ہے ائین میں ہمارے حقوق کیا ہیں ان تمام چیزوں کے بارے میں مجھے تفصیل سے معلومات حاصل ہوئی ہے اور جو کافی سود مند ثابت ہونے والا ہے۔
وہیں ایک طالب علم طیب خان نے کہا کہ بعض لوگ اس کورس کے تعلق سے سوال اٹھاتے ہیں کہ ندوہ میں قانون کی پڑھائی اگرچہ ہو رہی ہے لیکن ڈپلومہ کی یا کسی ڈگری کی سند نہیں دی جا رہی ہے ان کو میں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ تعلیم معلومات کے لیے ہے تاکہ طلبہ اپنی عملی زندگی کو بہتر بنا سکیں اور کسی بھی استحصال کا شکار نہ ہوں انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ قانون سبھی کے لیے ہے لیکن جب قانون سب جانیں گے تبھی اس کا استعمال کر سکیں گے لہذا ہم طلبہ نے قانون کی تعلیم حاصل کی ہے اور امید ہے کہ جو بھی بنیادی ضرورتیں یا بنیادی مسائل سامنے ائیں گے اسے بھارتی قوانین کی نظر میں اسانی سے حل کر سکیں گے وہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ہم اس قابل ہوجائیں کہ اپنی وکالت کرسکیں اس کے بعد دوسروں کی وکالت کی بات ہوگی۔
ڈاکٹر نسیم احمد جعفری نے بتایا کہ چونکہ یہ بہت ہی مختصر دورانیہ پر مشتمل کورس ہے اس میں ڈگری تو نہیں دی جا سکتی ہے لیکن اس سے مدرسے کے طلبہ میں کافی بیداری ائے گی اور وہ بھارتی قوانین کو جاننے میں دلچسپی دیکھنے کو ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ میں یونیورسٹی میں بھی تعلیم دیتا ہوں اور مدرسے میں بھی تعلیم دے رہا ہوں دونوں جگہ مجھے واضح فرق نظر ایا انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے کہ یونیورسٹی کے بچے ماڈرن طرز تعلیم سے اگاہی حاصل کیے رہتے ہیں لیکن مدرسے کے بچوں میں جو علم حاصل کرنے کی طلب ہے جستجو ہے تجسس ہے وہ یونیورسٹی کے بچوں میں نہیں دیکھا انہوں نے کہا کہ مدرسے کے طلبا میں واضح طور پر دیکھا ہے کہ جو بھی جس عنوان کے تعلق سے ان کو معلوم نہیں ہوتا تو اس کے اعتراف کرتے ہیں جبکہ یونیورسٹی کے بچے اعتراف کرنے میں شش و پنج کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی کے طلبا کے مقابل مدرسے کے طلبہ کافی ذوق اور شوق محنت لگن سے قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو بہت خوش ائند ہے اور امید ہے کہ اگر یہ طلبا یونیورسٹیز میں قانون کی تعلیم حاصل کریں گے تو ان کا مستقبل تابناک ہوگا۔