گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت کے بعد مسلمانوں کا اعتماد عدالت سے اٹھ رہا ہے؟
Muslims are losing faith in court in Gyanvapi case ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بابری مسجد مقدمہ اور گیانواپی مسجد مقدمہ میں کافی یکسانیت نظر ارہی ہے انہوں نے کہا کہ اے ایس ائی سروے رپورٹ نے جس طریقے سے بابری مسجد کیس کو متاثر کیا تھا اسی طریقے سے گیان واپی مسجد میں اے ایس ائی سروے رپورٹ متاثر کر رہا ہے۔
Published : Feb 6, 2024, 3:26 PM IST
لکھنو: بھارت کے معروف شہر ورانسی میں گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں مقامی عدالت نے پوجا کی اجازت دی جس کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں کے مابین شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔ بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بابری مسجد مقدمہ اور گیان واپی مسجد مقدمہ میں کئی جگہ یکسانیت ہے اس سلسلے میں کیسے قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے اور جزز کے سبکدوش ہونے کے اخری لمحات میں کن کن جزز نے مسلمانوں کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس پر اتر پردیش کے سابق اطلاعاتی کمشنر سید حیدر عباس رضوی سے خاص بات چیت کی ہے۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بابری مسجد مقدمہ اور گیانواپی مسجد مقدمہ میں کافی یکسانیت نظر ارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے ایس ائی سروے رپورٹ نے جس طریقے سے بابری مسجد کیس کو متاثر کیا تھا اسی طریقے سے گیان واپی مسجد میں اے ایس ائی سروے رپورٹ متاثر کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سروے رپورٹ میں اگرچہ دعوی کیا گیا ہے کی مسجد کی دیوار پر مندر کے نشانات ملے ہیں یا اس کے علاوہ بھی کئی جگہ مندر کے نشانات ملے ہیں تاہم اس سے اے ایس ائی اخری نتیجے پر ابھی نہیں پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے ایس ائی رپورٹ میں اس چیز کو بیان کرنے پر زور دیا جاتا ہے کہ زمین کے اندر کیا واقعات ملے ہیں اور اس کی کیا تاریخ رہی ہے۔ زمین کے اوپر کیا ہے اس سے رپورٹ کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے گیان واپی مسجد کا جو سروے رپورٹ ہے اس کے ذریعے اخری نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا میڈیا کے ذریعے ایک ماحول بنانے کی کوشش ہے اور وہی چاروں طرف نظر ا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عبادت گاہ 1991 ایکٹ پر مسلم فریق ہمیشہ بات کرتا ہے اور اس کو ایک مضبوط دلیل کے طور پر پیش کرتا رہتا ہے تاہم ائے دن عبادت گاہوں کے خلاف عدالت میں مقدمات درج ہو رہے ہیں اور عدالتیں اس کی سماعت بھی کر رہی ہیں عبادت گاہ ایکٹ کے خلاف عدالتیں فیصلہ بھی دے رہی ہیں جو کافی مایوس کن ہے لہذا اس ایکٹ کو بھی ختم کر دینا چاہیے تاکہ مسلم فریق جسے ایک مضبوط دلیل مان کر پیش کر رہا ہ وہ زعم ختم ہو جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں عدالتوں نے کچھ ایسے فیصلے دیے ہیں جس سے اکثر اقلیتی طبقے خاص کر مسلمانوں میں عدالتوں سے اعتماد رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے لہذا عدالتوں کو انصاف پر مبنی فیصلے سنانا چاہیے تاکہ جمہوری نظام میں عدالتوں سے عوام کا اعتماد ختم نہ ہو۔