سہارنپور:دنیا کا مشہور اسلامی تعلیمی ادارہ دارالعلوم دیوبند دنیا میں مذہبی تعلیم کے لیے جانا جاتا ہے۔ لیکن سیاست اور سیاسی لوگوں کی بھی دارالعلوم سے کافی وابستگی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سینئر رہنما دارالعلوم دیوبند آتے رہتے ہیں اور اقلیتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
الیکشن سے قبل کئی بار بڑے لیڈروں نے علمائے کرام کی مدد لی ہے۔ اب دارالعلوم میں قائدین کے داخلے پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ دارالعلوم کے شعبہ ترقیات کے نائب انچارج اشرف عثمانی نے کہا کہ یہ ایک مذہبی ادارہ ہے۔ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے تنظیم کے ذمہ دار افراد نے انتخابات کے وقت دارالعلوم میں قائدین کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ اگر لیڈر یہاں آ بھی جائیں تو تنظیم کا کوئی بھی ذمہ دار ان سے نہیں ملے گا۔
دارالعلوم دیوبند 30 مئی 1866 کو قائم کیا گیا۔ اس کی بنیاد حاجی سید محمد عابد حسین، فضل الرحمن عثمانی اور مولانا قاسم نانوتوی نے رکھی تھی۔ دارالعلوم کے پہلے استاد محمود دیوبندی تھے اور پہلے طالب علم محمود حسن دیوبندی تھے۔ اس وقت ملک کے کونے کونے سے تقریباً ساڑھے چار ہزار طلبہ یہاں اسلامی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ دارالعلوم سے ہر مسلمان جذباتی طور پر بھی جڑا ہوا ہے۔ دارالعلوم سے دیے گیے فتویٰ کو ہر مسلمان قبول کرتا ہے۔ قائدین بھی اسی سوچ کے ساتھ دارالعلوم کے دروازوں پر پہنچتے ہیں کہ انہیں کسی کمیونٹی کی حمایت حاصل ہو۔