حیدرآباد: بھارت میں ویسے مختلف قسم کے گیمز کھیلے جاتے ہیں لیکن بھارت نے بین الاقوامی سطح پر کرکٹ میں جس طرح سے نام کمایا ہے ویسا نام کسی اور کھیل میں نہیں کما سکا۔ کرکٹ نے لوگوں کے ذہنوں پر ایسا اثر چھوڑا ہے کہ وہ اس کھیل کی پوجا کرتے ہیں۔
لیکن حقائق اور ریکارڈ اس بات کی دلیل ہیں کہ ملک میں کرکٹ کے علاوہ کھیلوں کی موجودہ حالت قابل رحم ہیں۔ کرکٹ کی مقبولیت اور جنون کی وجہ سے اس کھیل کو بلاشبہ ملک کی بہترین انتظامیہ اور اسپانسرز ملتے ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے 10 ممالک کی فہرست میں بھارت نمبر ایک ہے، جس کی آبادی تقریباً 1.4 بلین ہے۔ لیکن بھارت نے کبھی بھی اپنے آبادی کے لحاظ اولمپک کھیلوں میں اس طرح کا مظاہرہ نہیں کر سکا جس طرح کم آبادی اور کم وسائل والے ملک جیسے فجی اور منگلولیا کرتے ہیں۔ بھارت پیرس اولمپکس کے میڈل ٹیبل میں 71 ویں نمبر پر رہا جبکہ کم وسائل اور کم آبادی والے ملک فجی اور منگولیا میڈل سٹینڈنگ میں 44ویں نمبر پر ہے۔
پیرس اولمپکس 2024 میں بھارت کی کارکردگی:
پیرس اولمپکس میں کل 117 بھارتی ایتھلیٹس نے ملک کی نمائندگی کی، لیکن اس نے مجموعی طور پر چھ تمغے حاصل کیے جس میں، ایک چاندی اور پانچ کانسے کا تمغہ تھا۔ 1.4 بلین کی آبادی میں سے بھارت صرف 117 ایتھلیٹس کو تیار کر سکا جو اولمپکس کے لیے کوالیفائی کر سکے۔ اس حساب سے ایک ملین سے زیادہ لوگوں میں سے یہ صرف ایک شخص اولمپیئن بن سکا۔
دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک پیرس اولمپکس میں ایک بھی گولڈ میڈل جیتنے میں ناکام رہا۔ بھارت نے 25 اولمپکس گیمز میں صرف 35 تمغے جیتے ہیں۔ ٹوکیو 2020 میں بھارت نے سات تمغے جیتے تھے جو ملک کا اب تک کا بہترین مظاہرہ تھا۔
بھارت نے اولمپکس میں خراب کارکردگی کیوں دکھائی؟
ناکافی انفراسٹرکچر اور تربیتی سہولیات کا فقدان: ملک میں جدید تکنیک کا گراس روٹ تک نہ پہچنا اس کی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ملک میں عالمی معیار کے کوچز کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کوچز کا انتخاب ان کی مقبولیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے نہ کہ کھیل کے بارے میں ان کی جدید سمجھ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
کھلاڑیوں کی بدانتظامی: بدانتظامی اور کھلاڑیوں کو فراہم کی جانے والی ناکافی مدد بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ کیونکہ جس طرح سے اولمپکس کے فائنل میں پہنچنے کے بعد ونیش پھوگاٹ کو نااہل قرار دیا گیا وہ ایتھلیٹ مینجمنٹ میں بدانتظامی کی ناکامیوں کو نمایاں کرتی ہے۔
کارکردگی کا دباؤ: کھلاڑیوں کی خراب کارکردگی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کئی کھلاڑی اپنے میچوں میں شروع میں برتری تو حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن وہ بہتر کارکردگی کے دباؤ اور مناسب ذہنی مضبوطی کی کمی کی وجہ سے وہ اپنی فتوحات کو میڈل یا فائنلسٹ میں تبدیل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
اسپورٹس فیڈریشن کے مسائل:یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارتی کھیلوں کی فیڈریشنز سیاست کاری اور بدعنوان سسٹم کی طرفداری کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے کھیلوں کی انتظامیہ میں ریزرویشن کا نظام اکثر نااہلی اور کم اہل افراد کے انتخاب کا باعث بنتا ہے۔
کھیلوں پر سیاسی افراد کا غلبہ: بھارت کے زیادہ تر کھیلوں کی فیڈریشنوں اور اداروں کی سربراہی سیاست دان کر رہے ہیں۔ جن سیاستدانوں کا کھیل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے وہ کھیلوں کی تنظیموں کی سربراہی کے خواہشمند ہوتے ہیں۔کچھ معاملات میں وہ انتظامی صلاحیت کے مالک ضرور ہوتے ہیں لیکن وہ کھیلوں کے جدید تقاضوں کے بارے میں کوئی سمجھ نہیں رکھتے ہیں۔
کھیلوں کے تئیں حکومتی توجہ کا فقدان: کھیلوں کی فنڈنگ اور سپورٹ میں بہتری کے باوجود حکومت کی ترجیحات دیگر اہم سماجی مسائل کے مقابلے میں تعلیم اور کھیلوں میں بہت کم ہے۔ کھیلوں میں طویل مدتی سرمایہ کاری فقدان بھی بھارت میں کھیلوں کی مضبوط ثقافت کے فروغ میں رکاوٹ ہے۔
بھارت میں کھیلوں کے لیے فنڈ مختص
حکومت کے پروجیکٹ کھیلو انڈیا، جس کا مقصد گراس روٹ لیول کے کھیلوں کو فروغ دینا ہے، کو سب سے زیادہ روپئے دیئے گئے۔ مرکزی بجٹ 2024 میں وزارت کھیل کے کل بجٹ 3,442.32 کروڑ روپے میں سے 900 کروڑ روپے صرف کھیلو انڈیا کے لیے مختص کیے گئے۔
کھیلوں اور کھلاڑیوں کی ترقی میں مالی سرپرستی اور فنڈنگ اہم کردار ادا کرتی ہے اور جب ہم کھیلوں کے بجٹ کو دیکھتے ہیں تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ بھارت کے مجموعی کھیلوں کے بجٹ میں دیگر بڑی معیشتوں کے مقابلے میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔
پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے دیگر سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے بڑھتی ہوئی فنڈنگ نے امید افزا نتائج دکھائے ہیں۔ بھارت کے اولمپک دستے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم ملک اپنے پڑوسی ممالک سے اقتصادیات کے مقابلے میں اب بھی پیچھے ہے۔
بھارت میں کھیلوں کو کیریئر کے طور پر کیوں نہیں لیا جاتا؟