سری نگر: جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے واضح کیا ہے کہ بار کونسل آف انڈیا (بی سی آئی) کے قوانین جو خواتین وکلاء کے ڈریس کوڈ کو کنٹرول کرتے ہیں، انہیں اپنے نقاب کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔
ہائی کورٹ کا یہ مشاہدہ 27 نومبر کے ایک واقعے کے بعد سامنے آیا جب ایڈوکیٹ سید عینین قادری نام کی خاتون وکیل اپنا چہرہ ڈھانپ کر عدالت میں پیش ہوئیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ گھریلو تشدد کی شکایت پر درخواست گزاروں کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ وکیل کی وردی میں ملبوس خاتون وکیل نے اپنے بنیادی حق کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس راہل بھارتی کی درخواست پر اپنا نقاب ہٹانے سے انکار کر دیا۔ وہیں عدالت نے ان کی شناخت کی تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے ان کی نمائندی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
جسٹس راہل بھارتی نے اپنے حکم میں کہا کہ "یہ عدالت درخواست گزار کے وکیل کے طور پر خود کو پیش کرنے والی خاتون کی پیشی کو قبول نہیں کرتی ہے کیونکہ اس عدالت کے پاس ایک شخص اور پیشہ ور دونوں کے طور پر ان کی اصل شناخت کی تصدیق کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔"
اس کے بعد کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی اور رجسٹرار جنرل کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ آیا قوانین ایسے لباس کی اجازت دیتے ہیں۔ جائزہ لینے کے بعد رجسٹرار جنرل کی رپورٹ 5 دسمبر کو پیش کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے۔
جسٹس موکشا کھجوریہ نے بی سی آئی رولز کے باب IV (حصہ VI) کے سیکشن 49 (1) (جی جی) کے تحت ضوابط کا حوالہ دیتے ہوئے 13 دسمبر کو تصدیق کی کہ چہرے کو ڈھانپنے کی اجازت دینے والا کوئی لباس تجویز نہیں کیا گیا ہے۔ جسٹس موکشا کھجوریہ نے کہا کہ "قواعد و ضوابط میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ اس طرح کے کسی بھی لباس میں اس عدالت میں پیش ہونے کی اجازت ہے۔"
رجسٹرار جوڈیشل نے پانچ دسمبر کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں واضح کیا کہ بی سی آئی رولز کے باب چہارم (حصہ VI) میں لیڈی ایڈووکیٹ کے ڈریس کوڈ میں کمرہ عدالت میں نقاب کی اجازت نہیں دیتا۔