اردو

urdu

ETV Bharat / jammu-and-kashmir

کیا این سی پھر سے سرینگر لوک سبھا سیٹ اپنے نام کر پائے گی؟ - Srinagar Lok Sabha seat

سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ سرینگر پارلیمانی نشست سے پانچ بار پارلیمنٹ پہنچے ہیں جبکہ اسمبلی الیکشن میں بھی سرینگر کی حمایت سے ہی این سی نے کئی بار ریاستی حکومت قائم کی ہے۔

کیا این سی پھر سے سرینگر لوک سبھا سیٹ اپنے نام کر پائے گی؟
کیا این سی پھر سے سرینگر لوک سبھا سیٹ اپنے نام کر پائے گی؟

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Mar 15, 2024, 6:00 PM IST

سرینگر:پارلیمانی انتخابات قریب آتے ہی، وادی کشمیر میں سیاسی جماعتیں مقابلے کے لیے تیار ہو رہی ہیں۔ پولییٹیکل پارٹیز پارلیمنٹ میں داخل ہونے اور ممکنہ طور پر اس سال کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے لیے زوروں سے تیاریاں کر رہی ہیں اور اپنے گمان کے مطابق اُن امیدواروں کو نامزد کرنے کے لیے اجلاس کر رہی ہیں، جو ان کے مطابق انتخابات میں جیت کر سکتے ہیں۔

سرینگر پارلیمانی نشست

سال 2023 کی متنازعہ حد بندی کے بعد سرینگر پارلیمانی نشست تقریباً 18 لاکھ ووٹروں کے اضافے کے ساتھ اب شوپیاں سے لے کر گاندربل اضلاع تک پھیلی ہوئی ہے، جس میں 18 اسمبلی حلقے شامل ہیں۔ ان اسمبلی حلقوں میں سرینگر ضلع کے حضرت بل، خانيار، حبہ کدل، لال چوک، چھانہ پورہ، زڈی بل، عیدگاہ، اور سنٹرل شالٹینگ شامل ہیں؛ پلوامہ ضلع کے پانپور، ترال، پلوامہ اور راجپورہ؛ جبکہ بڈگام ضلع کے خانصاحب، چرار شریف اور چاڈورہ؛ گاندربل ضلع کے گاندربل اور کنگن اور شوپیان ضلع کی ایک نشست شامل ہیں۔

1977 کے انتخابات کے بعد سرینگر نشست زیادہ تر نیشنل کانفرنس (NC) کے پاس ہی رہی ہے، 2014 تک جب NC کے صدر اور تین بار رہ چکے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (PDP) کے رہنما طارق حمید قرہ نے شکست دی تھی۔ قرہ نے 2017 میں پی ڈی پی اور اس نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب وہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبر ہیں۔ NC کے فاروق عبداللہ نے پانچ بار (1980 سے 2019 تک) پارلیمنٹ میں اس حلقے کی نمائندگی کی ہے اور ان کے بیٹے اور سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ نے ایک بار 1999 میں اس وقت نمائندگی کی تھی جب وہ اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی بی جے پی حکومت میں وزیر مملکت (خارجہ امور) تھے۔

دفعہ 370 کی تنسیخ کے بعد کشمیر وادی میں انتخابی لڑائی دو جماعتوں سے نکل کر اب کئی جماعتوں کے مابین منتقل ہو گئی ہے اور متنازعہ حد بندی نے حلقوں کی حدود اور ووٹروں کی تعداد کو دوبارہ سے متعین کر دیا ہے جس سے سیاسی جماعتوں کے لیے اپنے امیدواروں کا انتخاب کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ آنے والے انتخابات میں مرکزی مقابلہ پی ڈی پی اور این سی کے درمیان ہوگا۔ یہ دونوں جماعتیں ’انڈیا بلاک‘ کی ممبر ہیں۔ لیکن این سی کی طرف سے اننت ناگ - راجوری نشست میں پی ڈی پی کی حمایت کرنے سے انکار نے کشمیر میں اتحاد کو خاصا جھٹکا دیا ہے اور پی ڈی پی کو الگ کر دیا ہے۔

این سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کی خواہش ہے کہ نائب صدر عمر عبداللہ سرینگر نشست سے میدان میں اتریں، کیونکہ فاروق عبداللہ ممکنہ طور پر انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ پی ڈی پی کے ذرائع نے بتایا کہ پارٹی کے کارکنان اور رہنما محبوبہ مفتی پر زور دے رہے ہیں کہ وہ عمر عبداللہ کے خلاف میدان میں اتریں۔ تاہم پارٹی رہنماؤں کا ایک گروہ سرینگر لوک سبھا نشست کے لیے نوجوان رہنما وحید پرہ کی امیدواری پر زور دے رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق وحید نے ذاتی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے مقابلہ کرنے سے اپنی عدم رغبت کا اظہار کیا ہے۔ ایسا بتایا گیا ہے کہ اگر محبوبہ اور وحید دونوں نے سرینگر سے مقابلہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو پھر پی ڈی پی اس نشست کے لیے محبوب بیگ کو میدان میں اتارنے پر غور کر سکتی ہے۔

سرینگر نشست پر این سی کی کافی امیدیوں وابستہ ہیں کیونکہ ان سی ضلع کو اپنا گڑھ سمجھتا ہے، اس لیے بھی کیونکہ فاروق عبداللہ سرینگر سے لوک سبھا کے لیے پانچ بار منتخب ہوئے ہیں، جب کہ دونوں عبداللہ ایم ایل اے کے طور پر سرینگر سے منتخب ہوئے ہیں اور سرینگر کی حمایت سے ہی وزیر اعلیٰ بنے ہیں۔ حد بندی کے بعد پلوامہ اور شوپیاں کے PDP کے مضبوط گڑھ سرینگر میں شامل کر دیے گئے ہیں، جس سے یہ PDP اور NC کے درمیان ایک دلچسپ لڑائی ہے۔ پی ڈی پی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ گاندربل اور کنگن میں پارٹی کو اچھی حمایت حاصل ہے، جب کہ پارٹی نے 2014 کے انتخابات میں چاڈورہ اور چرارِ شریف میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پارٹی گاندربل میں اشفاق جبار اور بڈگام کے خان صاحب حلقے میں حکیم یاسین کی حمایت حاصل کرے گی۔

این سی کے ایک سینئر لیڈر نے کہا کہ پارٹی کو سری ؤنگر سیٹ پر پی ڈی پی کے مقابلے میں مضبوط برتری حاصل ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ سرینگر کے تمام سابق قانون سازوں کے اپنی پارٹی بنانے کے بعد پی ڈی پی کمزور ہو گئی ہے۔ پلوامہ اور شوپیاں اسمبلی حلقے پی ڈی پی نے 2002 سے جیتے ہیں۔ 5 اگست 2018 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد صرف سابق ایم ایل اے پلوامہ خلیل بند اور حسیب درابو نے پارٹی چھوڑی ہے۔ آسیہ نقاش کے علاوہ سرینگر میں اس کے تمام سابق ممبران اسمبلی نے پارٹی کو تبدیل کرکے اپنی پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ 2008 اور 2014 کے انتخابات میں پی ڈی پی نے سرینگر ضلع میں آٹھ میں سے پانچ سیٹیں جیتیں۔ 2014 کے انتخابات میں چاڈورہ، چرار شریف بھی پی ڈی پی کے پاس تھے۔ یہ کامیابیاں این سی کے سینئر لیڈروں کے خلاف سامنے آئیں تھیں جن میں علی محمد ساگر، عرفان شاہ، سید آفاق، عمر عبداللہ، رحیم راتھر اور علی محمد ڈار شامل ہیں۔

گاندربل سیٹ 2002 میں پی ڈی پی کے پاس تھی جب اس کے مرحوم رہنما قاضی افضل نے عمر عبداللہ کو شکست دی تھی۔ کنگن طبقہ این سی کے رہنما میاں الطاف کا گڑھ ہے، جو 90 کی دہائی سے اس کی نمائندگی کر رہے ہیں جب ان کے والد مرحوم میاں بشیر نے اپنے بیٹے کے لیے سیٹ چھوڑنے کے لیے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی تھی۔ پی ڈی پی کے بشیر میر نے 2014 کے انتخابات میں 20,000 سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے اور کنگن میں انہیں خاصی حمایت حاصل ہے۔

پی ڈی پی لیڈروں کا خیال ہے کہ پچھلے انتخابات کے اعداد و شمار اور اس کا ورکر کیڈر پارٹی کے ساتھ رہا ہے، وہ سرینگر میں این سی کو شکست دے سکتی ہے۔ پی ڈی پی کے مخالفوں کا کہنا ہے کہ پارٹی کے چار سابق ممبران اسمبلی جنہوں نے اپنی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی، کارکنوں اور سینئر کارکنوں کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں، جس سے پی ڈی پی کے ووٹر شیئر پر اثر پڑ سکتا ہے۔ اپنی پارٹی ممکنہ طور پر سابق وزیر اور ایم ایل اے سونہ وار اشرف میر کو سرینگر پارلیمانی سیٹ سے کھڑا کرے گی، جبکہ سجاد لون کی پارٹی نے عندیہ دیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسی پارٹی کی حمایت کرے گی جو ’’کشمیر کے لوگوں کے سب سے بڑے دشمن‘‘ کو شکست دے سکتی ہے، یعنی ان کا اشارہ نیشنل کانفرنس کی طرف تھا۔

یہ بھی پڑھیں:انتخابات کے دوران سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے تیار، ڈی جی پی

ABOUT THE AUTHOR

...view details